تحریر: علی احمد جان
گلگت شہر میں عید کے دوسرے روز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امام جمعہ و الجماعت مرکزی امامیہ مسجد آغا راحت الحسینی نے دیگر مسالک کو حقانیت اور سچائی کو ثابت کرنے کے لئے مباہلہ کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ جگہ اور وقت کا تعین کیا جائے۔ جواب میں امیر اہل سنت و الجماعت گلگت بلتستان و کوہستان قاضی نثار احمد نے دعوت کو قبول کیا۔ اس خط و کتابت میں مجوزہ مباہلہ کے لئے مئی 21 کی تاریخ اور شاہی پولو گراؤنڈ کا مقام طے پا گیا۔
مباہلہ کے لئے آگ جلانے اور ان علمائے کرام کے اس میں کود جانے کی نوبت آئے نہ آئے مگر اس اعلان اور جوابی اعلانات کے بعد سے مذہبی فرقہ واریت کی آگ چہار سو پھیل رہی ہے۔ لوگوں کے ذہن میں یہ خیال ابھر رہا ہے کہ شاید اس اعلان کا مقصد بھی اس کے سوا کچھ نہ ہو وگرنہ ایسا کیا نیا پیش آیا تھا کہ آگ میں کود کر سچائی ثابت کرنے کی ضرورت پیش آئی۔
قرون اولیٰ و قرون وسطیٰ میں رونما ہوئے ایسے واقعات پڑھ کر ہم ایسی باتوں کو اساطیر اور کہانیاں سمجھ رہے تھے۔ مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ علمائے دین کہلانے والے لوگوں کی طرف سے اکیسویں صدی میں کیے اعلان نے ان واقعات کو سچا ثابت کیا ہے یا ہمیں واپس قرون اولیٰ میں لا کھڑا کر دیا ہے۔
اس ملک میں اظہار رائے کی آزادی صرف مذہبی حلقوں کو حاصل ہے۔ جو جس کی مرضی جو کہہ دے کوئی روکنے والا نہیں۔ دوسرے مذاہب کی توہین اور تحقیر تو عام سی بات ہے یہ ایک دوسرے کی بھی کھلم کھلا تکفیر کرتے ہیں مگر ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔
ہمارے ہاں انسداد دہشت گردی کے قانون میں ایک شیڈول 4 ہے جس میں ایسے لوگوں کو ڈالا جاتا ہے اور ان کی نقل و حرکت کو محدود کیا جاتا ہے جن سے لوگوں کو تشدد پر اکسانے کا احتمال ہو۔ جن کی تحریر و تقریر سے لوگوں کے مشتعل ہونے کا خدشہ ہو۔ مگر گلگت بلتستان میں اس شیڈول کے اندر صرف وہ سیاسی کارکنان آتے رہے ہیں جو عام لوگوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ ریاستی اداروں کو جو شخص پسند نہ آئے اس کو شیڈول 4 کے تحت پابند کیا جاتا ہے۔ تکفیر، تشدد اور نفرت کی صدائیں صبح شام سننے کے باوجود کوئی ذمہ دار اس قانون کے دائرے میں کیوں نہیں آتا؟
میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جس حقانیت کو ثابت کرنے کی کوشش گلگت کے چھوٹے سے شہر میں کی جا رہی ہے اس کا روئے زمین کی دیگر مذاہب و مسالک پر کیا اثر پڑے گا۔ دیگر کی کیا بات کی جائے سوال تو یہ بنتا ہے کہ کیا دیوبند، بریلی، جامعۃ الازہر، قم اور نجف میں بیٹھے اکابرین و معلمین بھی گلگت شہر کی آگ میں کودنے والے اپنے معتقدین کو سراہ سکیں گے؟
میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جس حقانیت کو ثابت کرنے کی کوشش گلگت کے چھوٹے سے شہر میں کی جا رہی ہے اس کا روئے زمین کی دیگر مذاہب و مسالک پر کیا اثر پڑے گا۔ دیگر کی کیا بات کی جائے سوال تو یہ بنتا ہے کہ کیا دیوبند، بریلی، جامعۃ الازہر، قم اور نجف میں بیٹھے اکابرین و معلمین بھی گلگت شہر کی آگ میں کودنے والے اپنے معتقدین کو سراہ سکیں گے؟
انسان نے اب تک کرہ ارض کے نظام شمسی کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے اور اس کی بنیاد پر رائے قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ چاند تک رسائی کے بعد مریخ تک پہنچنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ایسے کروڑہا نظام شمسی ایک گلیکسی تشکیل دیتے ہیں ایسی لا تعداد گلیکسیوں سے متشکل اس کائنات کی وسعت کا بھی کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکا۔ کچھ کہتے ہیں صحرائے گوبی کی ریت کے ذرات سے زیادہ ستارے اور سیارے ہوسکتے ہیں اور کچھ کے خیال میں اگر تقسیم کیا جائے تو زمین پر بسنے والے ہر انسان کے حصے میں ایک سے زیادہ گلیکسی آ سکتی ہے۔ ایسی لامحدود کائنات کے حقائق کو کیا آگ میں کود کر ثابت کیا جائے گا؟
انسان نے کائنات کے بارے میں اب تک صرف تین لفظ زمان، مکان (جگہ) اور مادہ (ٹائم، سپیس اور میٹر) دریافت کیا ہے۔ کائنات کی وسعت کو جگہ / مکاں یا سپیس کہا گیا ہے جس کی وسعت کا کوئی اندازہ نہیں۔ جس طرح یہ نہیں معلوم کہ کائنات کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہوتی ہے اس طرح ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کا ازل کتنا قدیم ہے۔ اس کو زمان (وقت یا ٹائم) کہا گیا ہے اور جو ستارے اور سیارے یہاں ہیں ان کو مادہ کہا گیا جس کا منبع ایک سر بستہ راز ہے۔
کہتے ہیں کہ جو رات کو ہمیں نظر آتے ہیں وہ زیادہ تر سورج کی طرح قریب کے ستارے ہیں جن کی اپنی روشنی ہوتی ہے اور چھوٹے بڑے سیارے جن کی اپنی روشنی نہیں ہوتی وہ ہمیں نظر بھی نہیں آتے۔ بعض ایسے ستارے ہمیں نظر آتے ہیں وہ اب شاید وہاں ہیں بھی نہیں کیونکہ ان سے ہمارا فاصلہ اربوں نوری سال کاہے۔ نوری سال کا مطلب روشنی کی رفتار سے سفر کا سال۔ عملی طور پر سو سال میں صرف تین ارب سیکنڈ ہوتے ہیں اور یہاں فاصلہ ہے اربوں نوری سال کا جو نہ صرف فاصلہ بتاتا ہے بلکہ وقت کی قدامت او ہماری اوقات بھی یہاں عیاں ہوتی ہے کہ کتنی سانسوں کے مہمان ہیں۔
جس زمین پر ہم رہتے ہیں اس لامحدود کائنات کی لاتعداد گلیکسیوں میں ایک گلیکسی کے اربوں میں سے ایک نظام شمسی میں ایک سوج کے گرد گھومنے والے سیاروں میں سے درمیانی درجے کا سیارہ ہے۔ اس زمین کو بھی سورج سے بکھر کر الگ ہوئے ساڑھے چار ارب سال ہوئے ہیں جو کائنات کی عمر کے حساب سے دیکھا جائے تو انتہائی قلیل وقت ہے۔ سورج سے الگ ہونے کے بعد زمین کا ایک ارب سال اس حالت تک آنے میں گزرا کہ یہاں زندگی جنم لے سکے۔ زمین پر زندگی کے جنم کے بعد کا وقت ساڑھے تین ارب سال ہے جب کہ انسانی تہذیب کے آثار صرف چھ ہزار سال پرانے ہیں۔ ہم جس بات پر آج الجھ رہے ہیں وہ ان ہی چھ ہزار سالوں کی ہے وہ بھی صرف ایک خطے کی جبکہ دوران انسان نے مشرق اور مغرب میں بحر الکاہل اور بحر اوقیانوس سے پرے، شمال اور جنوب میں بحر منجمد شمالی اور بحر منجمد جنوبی کے پار بود و باش اختیار کی ہے۔
روئے زمین پر اب تک جتنے اجتماعی و انفرادی مذاہب اور عقائد نظر آتے ہیں وہ مظاہر فطرت کے بارے میں مختلف انسانی خدشات، خواہشات اور نظریات پر مشتمل ہیں۔ اساطیر اور کہانیوں میں مظاہرات عالم کے ساتھ جڑی باتوں پر سوالات اور ان کے جواب کے لئے اکٹھے کیے شواہد نے موجودہ سائنس کے لئے بنیاد فراہم کیا۔ سورج اور چاند ستاروں کی پوچا سے شروع ہونے والا عقیدے سے مشاہدے کا سفر دن رات ماہ و سال کی دریافت کے بعد بھی جاری ہے۔ سمندر، صحراؤں، پہاڑوں اور دریاؤں کے بارے میں اساطیر اور کہانیوں کی جیو میتھالوجی سے ہی جیوگرافی کے علم کا آغاز ہوا۔
ہم آگ، دریا یا پہاڑ سے کود کر کائنات کے سر بستہ راز کبھی بھی نہ جان سکیں گے اور نہ ہی کسی دوسرے پر اپنی حقانیت ثابت کر سکیں گے مگر تحقیق، مشاہدے اور مطالعے سے کم از کم خود آگاہی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے جس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
خود آگاہی اور حقیقت شناسی کے لئے بھی سوال اٹھانے اور شواہد پرکھنے کی آزادی ضروری ہے تاکہ عقل و شعور سے فیصلہ کیا جاسکے۔ اگر یہ آزادی نہ ہو تو پھر فیصلے ایسے ہی کیے جائیں گے جو گلگت میں ہونے جا رہا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ مضمون پہلے ‘ہم سب، میں شائع ہو چکا ہے۔ ہم مصنف کی اجازت سے یہاں دوبارہ شائع کر رہے ہیں۔
علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔سیر و سیاحت، کو ہ نوردی اور سماجی میل جول کے شائق ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جوسوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔