تحریر: انجینر منظور پروانہ
۲۱ جون 2018ء کو گلگت-بلتستان کی تاریخ میں ایک سیاہ ترین باب کا اضافہ ہوا۔ اس دن حکومت پاکستان نے اس متنازعہ خطے میں قانون انسداد دہشت گردی کی شق شیڈول فور کا نا جائز اور بے جا استعمال کرتے ہوئے سینکڑوں امن پسندشہریوں اور سیاسی و سماجی کارکنوں سے آزادی سے زندگی گزارنے کا حق چھین لیا۔
انسداددہشت گردی کا قانون پاکستان میں دہشت گردوں اور کالعدم انتہا پسند فرقہ پرست اور جہادی تنظیموں کی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے بنایا تھا۔ لیکن حکومت پاکستان اس قانون کوغیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر متنازعہ گلگت بلتستان میں حقوق کی بات کرنے والے سیاسی رہنماؤں اور سوشل میڈیا کارکنوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ گلگت بلتستان میں شیڈول فور کے فہرست میں شامل افراد پر کئے گئے غیر جانبدارانہ تحقیقات سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ اس قانون کا اطلاق نہ تو کالعدم مذہبی و سیاسی جماعتوں پر ہو رہا ہے اور نہ ہی دہشت گردوں پر ہورہا ہے بلکہ گلگت بلتستان کے عوام کی بنیادی حقوق کے لئے آواز اٹھا نے والے پرامن سیاسی کارکنوں پر ہو رہا ہے۔
ابتدائی طور پر حکومت نے 183 افراد کو شیڈول فور میں ڈالا تھا، ان میں سے اکثریت انفرادی اور اجتماعی طور پرگلگت بلتستان کے حقوق کے لئے آواز اٹھا نے والے سیاسی و سماجی کارکن تھے۔ ان پر امن شہریوں کاکسی بھی مذہبی و دہشت گرد تنظیم سے تعلق نہ ہونے کے باوجود شیدول فور میں خانہ پوری کے لئے شامل کئے گئے تھے، تاکہ ریاستی اداروں کا خوف ان کے دلوں پر چھائے رہے اور ضلعی سطح پر بنائی گئی کمیٹوں کے آٖفیسران اپنی کارکردگی دکھا کر ترقی و انعامات حاصل کر سکیں۔ کچھ لوگوں کو ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پربھی شیڈول فور میں ڈالے گئے او کچھ لوگوں کو ذاتی و خاندانی دشمنی، سیاسی مخالفت، سرکاری اداروں کے لئے سہولت کاری نہ کرنے کے پیش نظر شیڈول فور میں شامل کئے گئے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
گلگت بلتستان میں کسی کا نام شیڈول فور میں ڈالنے اور نکالنے کا اختیارسول انتظامیہ کے پاس نہیں ہے۔ شیڈول فور کی لسٹ پر کی گئی تحقیقات کے بعد انتہائی ہو شرباء انکشافات بھی سامنے آئے ہیں۔ محکمہ پولیس گلگت بلتستان کے سابق سربراہ ثنا ء اللہ نے ان فہرستوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دو سال قبل بیان دیا تھا کہ شیڈول فور میں شامل تمام بے گناہ افراد کو نکال دیا جائے گا۔ کیونکہ ان افراد کے خلاف کسی بھی تھانے میں کسی بھی قسم کی معمولی شکایت تک نہیں۔ تا ہم چاقتور اداروں کی مخالفت اور مداخلت کی وجہ سے انہیں فہرست میں خاطر خواہ کمی لانے میں کامیابی نہیں ملی۔
پچھلے دو سال سے شیڈول فور سے نام نکالنے کے لئے خفیہ اداروں کی مختلف لوگوں کے ساتھ ڈیل بھی چلتی رہی ہے۔ کافی لوگوں کو خفیہ معاہدے کے بعد شیڈول فورسے نکال لئے گئے ہیں اور ان سے عہد لیا گیا ہے کہ وہ گلگت بلتستان کی قومی سوال پر کسی بھی قسم کی سیاست نہیں کریں گے، حکومتی اقدامات کے خلاف کسی تحریک کا حصہ نہیں بنیں گے، اورگمنامی کی زندگی گزاریں گے۔
حکومتی سطح پر بھی اس بات کا اعتراف کیا جا رہاہے کہ شیڈول فور کا گلگت بلتستان میں استعمال غلط ہوا ہے۔ اس لئے اس فہرست میں سے اب تک تقریبا 200 سے زیادہ افراد کو بے گناہ قرار دے کر نکالے جا چکے ہیں جو کہ اس قانون کی بے جا استعمال کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس وقت بھی 36 افراد کو شیڈول فور میں رکھے گئے ہیں۔ضلعی انتظامیہ نے ماورائے قانون ایک حلف نامہ بنایا ہے جس پر دستخط کرنے والوں کو بھی شیڈول فور سے نکالا جاتا ہے۔ یہ حلف نامہ جنیوا کنونشن اور آ ئین پاکستان کے دفعات سے متصادم ہیں جس میں مبینہ طور پر لوگوں کو حق رائے دہی، حق تنظیم سازی، حق اظہار رائے، حق ملازمت اور حق آزادی سے محروم کر دیا گیا ہے۔
گلگت اور دیامر ڈویژنوں سے کافی تعداد میں قومی، مذہبی و سیاسی رہنماؤں، ماہرین تعلیم، سماجی کارکنوں اور سوشل میڈیا کارکنوں کو شیڈول فور میں ڈالے گئے تھے۔ ان میں سے بعض افراد پر سی پیک کے خلاف سازش کے الزمات کے تحت مقدمات بھی بنائے گئے تاہم اس وقت ان میں سے بیشتر کو قید و بند کی اذیت دینے کے بعد بے قصور قرار دے کر رہا کر دئیے ہیں اور ان کے نام شیڈول فور سے بھی خارج کئے گئے ہیں۔ اور اب بھی بہت سے سیاسی کارکنوں کو شیدول فور پر رکھا جا رہا ہے تاکہ انہیں معاشی طور پر کمزور کر کے ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو دبایا جا سکے اور انہیں عوامی حقوق کی جدو جہد سے دور رکھا جا سکے۔ گلگت ڈویژن سے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ حسنین رمل، کرنل (ریٹایرڈ) نادر حسن، شیخ مرزا علی، سابق رکن اسمبلی دیدار علی، یاور عباس، افتخار احمد، فٖضل احمد، راجہ ناصر، شاہد حسین اور دیگر کئی سماجی و سیاسی کارکنوں کو عوامی حقوق کے لیے موثر آواز بلند کرنے کی پاداش میں میں مسلسل شیڈول فور میں ر کھے جا رہے ہیں۔
بلتستان ڈویژن سے پانچ سرکردہ رہنماؤں کو شیڈول فور میں ڈالے گئے ہیں۔ ان میں سے کسی بھی فرد کا کسی بھی دہشت گرد تنظیم سے بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ ان افراد کو شیڈول فور میں شامل کرنے کی بنیادی وجہ بلتستان ڈویژن کی ضلعی شیڈول فورکمیٹی کے ممبران کی ذاتی خواہش بتائی جاتی ہے۔ بلتستان ڈویژن کو پر امن اور دہشت گردی سے پاک خطہ ہونے کی تاثر کو زائل کرنے کے لئے ضلعی کمیٹی نے ان افراد کو شیڈول فور میں ڈالنے کی سفارش کی تھی۔ حالانکہ متعلقہ تھانوں اور سپیشل برانچ کی روزنامچوں میں بھی ان افراد کے خلاف کسی بھی قسم کی شکایت یا مقدمہ نہ ہونے کی رپورٹ سامنے آئی تھیں۔
بلتستان ڈویژن سے سید آغا علی رضوی جنرل سکریٹری، متحدہ وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم)، منظور پروانہ، سابق صدر بلتستان سٹوڈینس فیڈریشن و چئیرمین گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ، شہزاد آغا، رکن گلگت بلتستان اسمبلی (پی پی پی)، شبیر مایار کنوینر گلگت بلتستان بچاو تحریک، شیخ محمد علی کریمی، ایم ڈبلیو ایم شیڈول فور کی فہرست میں شامل ہیں۔
سید علی رضوی گلگت بلتستان میں حکومت مخالف احتجاج کے روح رواں اور ایک نڈر عوامی رہنما ہیں۔ گندم سبسڈی تحریک اور ٹیکس مخالف مارچ میں ان کی قائدانہ صلاحیت سے حکومت خوف زدہ تھیں، اس لئے شیڈول فور پر رکھا ہوا ہے۔ شبیر مایار، شیخ کریمی اور غلام شہزاد آغا بھی مزاحمتی تحریکوں کے روح رواں سمجھے جاتے ہیں جبکہ راقم نےہمیشہ حق کی بات کی ہےاور قومی حقوق کے لیے بساط بھر آواز بلند کی ہے۔ میں نے اسکردو حلقہ فور سے انتخابات میں بھی حصہ لیٗے ہیں، راقم بلتستان اسٹوڈینس فیڈریشن کا صدر بھی رہ چکا ہے اور گزشتہ بیس سالوں سے گلگت بلتستان کے عوامی حقوق کے لئے جد وجہد کو عالمی سطح پر متعارف کرانے، گلگت بلتستان میں بدعنوانی، اقربا پروری، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھانے پرشیڈول فور میں ڈالا گیا ہے۔
شیڈول فور کے تحت فہرست میں شامل تمام افراد کے بینک اکا ؤنٹ منجمد کئے گئے ہیں، شناختی کاڑد بلاک اور پاسپورٹ ضبط کئے گئے ہیں اور ان کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔حال ہی میں دیامر سے مبشر آر بی کے اور عثمان علی قریشی کو دیامر بھاشا ڈیم کی متاثرین کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے پر شیڈول فور کی لسٹ پر ڈالا گیا ہے۔
شیڈول فورکو پارٹی وفاداریاں تبدیل کروانے کے لئے بھی موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔گلگت بلتستان کے قوم پرست رہنماؤں کو بھی اس طرح کے دباؤ کا سامناہے۔ضلع غذر سے بی این ایف اور بی این ایس او کے کافی کارکنوں کو پی پی پی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ میں شامل ہونے کے بعد شیڈول فور کی فہرست سے نکالے گئے ہیں۔
انتہائی دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کی آٹھ مذہبی جماعتوں کو دہشت گردی کے شبہ میں کالعدم قرار دے چکی ہے لیکن ان کے سر کردہ رہنماؤں، سہولت کاروں اور کارکنوں کو شیڈول فور کی فہرست میں نہیں ڈالا گیا ہے۔ انہیں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی کھلی آزادی دی گئی ہیں، بلکہ ان کالعدم جماعتوں کے رہنماؤں کو گلگت بلتستان اسمبلی میں اہم عہدوں پر فائز کئے گئے ہیں۔ روز نامہ باد شمال میں ۱۱ مئی 2019ء کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق حکومت نے کالعدم جماعتوں کے ان رہنماؤں کو پارٹی تبدیل کرنے کی صورت میں اپنے عہدوں پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سے یہ بات ثا بت ہو تی ہے کہ کوئی بھی کالعدم جماعت کا رہنماء یا رکن،مسلم لیگ یا پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر کے محفوظ راستہ حاصل کرسکتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ گلگت بلتستان میں کالعدم تنظیموں کی حکومتی سرپرستی جاری و ساری ہیں۔
گلگت بلتستان میں کالعدم اور دہشت گرد قرار دیئے گئے کسی بھی سیاسی و مذہبی جماعت کے کارکنوں کو شیڈول فور میں نہیں ڈالے گئے ہیں۔ سانحہ کوہستان، سانحہ یادگار چوک گلگت اور سانحہ چیلاس میں ملوث مبینہ دہشت گرد بھی شیڈول فور سے آزاد ہیں، دیامر میں سرکاری سکولوں کو جلانے اور کارگاہ نالہ میں پولیس کے چار جوانوں کو شہید کرنے والے کمانڈرز بھی شیڈول فور میں شامل نہیں تھے۔
انسداد دہشت گردی کا قانون آئینی و قانونی طور پر کسی بھی صورت ایک متنازعہ خطے میں نافذ نہیں کیا جا سکتا، اس قانون کے اطلاق کا مقصد صرف اور صرف نو آبادیاتی نظام حکومت کے خلاف عوامی مزاحمتی تحریکوں کو کچل دینا ہے تاکہ حقوق کے لئے اٹھنے والی ہر آواز کو دہشت گردی سے جوڑ کردبایا جا سکے، اور گلگت بلتستان کے عوام کی بنیادی و انسانی حقوق کی آواز عالمی سطح پر نہ پھیل سکے۔
کئی سال پہلے بھارت نے بھی جموں و کشمیر میں پوٹا نام سے شیڈول فور سے ملتی جلتی قانون کا نفاذ کیا تھا جس کے بعد آزادی کشمیر کی تحریک کو دہشت گرد تحریک بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیاگیااوراب حکومت پاکستان گلگت بلتستان میں شیڈول فور کے ذریعےعوام کے سروں کو فتح کرنے میں کوشاں ہے۔ متنازعہ خطے میں جہاں استصواب رائے کا ہونا باقی ہو، عوام کے سروں پر حکومت قائم کرنے کی بجائے دلوں کو فتح کرنے کی حکمت عملی اپنائی گئی تو تنازعہ گلگت بلتستان کے مثبت تنائج سامنے آ سکتے ہیں اوریہ اسی صورت میں ممکن ہے جب متنازعہ خطے میں عوام دشمن کالے قوانین کی اندھا دھند استعمال سے گریز کرتے ہو ئے عوام کو آزادی سے جینے کا حق دیا جائے۔
گلگت بلتستان کے عوام حکومتی اداروں بالخصوص شیڈول فور کی فہرست بنانے والی ضلعی انٹیلجنس کمیٹی سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ عوام کو یہ بتایا جائے کہ سید علی رضوی کس کالعدم مذہبی تنظیم کا سربراہ ہے جسے شیڈول فور میں رکھا گیا ہے؟ منظور پروانہ اور شبیر مایار کس دہشت گرد تنظیم کے کارکن ہیں اور شہزاد آغا کو رکن اسمبلی منتخب ہونے کے باوجود شیڈول فور کی فہرست میں رکھ کر دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے؟ یاور عباس اور حسنین رمل کس دہشت گرد جماعت یا میڈیا اکارکن ہیں؟ اگر یہ لوگ کسی دہشت گرد تنظیم سے وابسطہ ہیں تو ان کی تفصیلات عوام کے سامنے لایا جائے اور عدالتوں میں ان پر مقدمہ چلایا جاےٗ۔ امن پسندوں کودہشت گرد ثابت کرنا ہمارے خیال میں عظیم تر قومی مفاد میں نہیں۔
منظور پروانہ قوم پرست سیاسی کارکن اور گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ کے چیرمین ہیں