Baam-e-Jahan

کیا عبوری صوبہ بنانا آسان ہے؟

اسرارالدین اسرار


مختلف ادوار میں اسلام آباد اور گلگت بلتستان میں برسر اقتدار ہر حکومت یہاں کے باسیوں کو امید دلاتی رہی ہے کہ وہ اس متنازعہ خطے کا دیرینہ آئینی و سیاسی حقوق کا مسئلہ حل کرے گی۔ کسی بھی حکومت کی طرف سے جب کھبی کوئی سیاسی و انتظامی پیکیج دیا جاتا ہے تو ابتدائی طور پر ان کے حمایتیوں کی طرف سے واہ واہ ہوجاتی ہے۔ لیکن چند سالوں کے اندر اس کی حقیقت عیاں ہوجاتی ہے اور لوگ دوبارہ آئینی و سیاسی محرومیوں کا رونا روتے ہیں۔ یہ مشترکہ بیماری ہے کہ جو حکومت برسر اقتدار ہوتی ہے وہ سب ٹھیک ہے کا راگ الاپتی رہتی ہے اور جوں ہی وہ اقتدار سے محروم ہو کر حزب اختلاف بن جاتی ہے تو سیاسی محرومیوں کا منجھن بیچنا شروع کر دیتی ہے۔

1972, 1975, 1994 ,1979, 2007 اور 2009 سمیت مختلف ادوار میں گلگت بلتستان کے لئے انتظامی و سیاسی پیکیجز اسلام آباد کی طرف سے دئیے جاتے رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر پی پی پی کے مختلف ادوار میں دئے گئے پیکیجز ہیں۔ 2018 میں ن لیگ کی حکومت نے بھی ایسی ہی ایک کوشش کی تھی۔ جس کے لئے پیپیر ورک انہوں نے کافی بہتر کیا تھا لیکن بعد ازاں 2009 کے آرڈر میں چند ترامیم کے علاوہ وہ کچھ نہیں کر سکے۔ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے 2015 کے انتخابات کے سلسلے میں اپنی انتخابی مہم کے دوران گلگت بلتستان کو بہت بڑا سیاسی و انتظامی پیکیج دینے کا اعلان کیا تھا۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد انہوں نے اس وقت کے وزیر خارجہ سر تاج عزیز کی قیادت میں ایک کمیٹی بنائی جس نے سابق قبائلی ایجنسیوں اور گلگت بلتستان کے سیاسی حقوق سے متعلق تجاویز دینے تھے۔

سرتاج عزیز کی قیادت میں کمیٹی نےجی بی کے مسئلے کو تاریخی حقائق کی روشنی میں سمجھنے کے لئے اس وقت کے چیف سکریٹری طاہر حسین کو ذمہ داری دی کہ وہ مقامی ماہرین کی مدد سے ایک تحقیقی رپورٹ تیار کرائیں تاکہ اس مسئلے کو بہتر انداز میں سمجھا جاسکے۔ اس وقت کے چیف سکریٹری نے 21 نومبر 2015 کو مقامی ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی اور پندرہ دنوں کے اندر گلگت بلتستان کے کیس سے متعلق تاریخی مواد، دستاویزات اور اہم معاہدوں کی تشریح اور تجزیہ کرنے کے علاوہ گلگت بلتستان کی سرحدات سے متعلق تاریخی دستاویزات کا مطالعہ کر کے ایک جامع رپورٹ پیش کرنے کو کہا۔ اس سات رکنی کمیٹی کے کنونئر برگیڈئر ریٹائرڈ حسام اللہ بیگ تھے جب کہ گلگت سے محقیق اور مصنف شیرباز علی برچہ، تاریخ دان پروفیسر عثمان علی، دیامر سے کسٹمری لاز سے متعلق آگاہی رکھنے والے شخصیت ڈی آئی جی ریٹائرڈ دلپزیر، اسکردو سے مصنف اور صحافی قاسم نسیم، ہنزہ سے کرنل ریٹائرڈ امتیاز الحق اور غذر سے انسانی حقوق سے متعلق جانکاری اور سیاسی امور پر طویل عرصہ سے لکھنے کی وجہ سے راقم اس کمیٹی کے ممبر بنے تھے۔

کمیٹی نے پندرہ روز کے اندر اندر تمام تاریخی دستاویزات اور کتابوں کا جائزہ لیا اور ایک جامع رپورٹ تیار کی جس میں اس بات کا خصوصی خیال رکھا گیا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو متاثر کئے بغیر گلگت بلتستان کا سیاسی و آئینی مسئلہ حل کیسے ہو سکتا ہے۔ کمیٹی کا اصل کام تاریخی طور پر گلگت بلتستان کے مقدمہ کا مطالعہ کر کے اس کو جامع رپورٹ کی شکل دینا تھا تاکہ سرتاج عزیز کی قیادت میں قائم کمیٹی گلگت بلتستان کا کیس بہتر انداز میں سمجھ سکے۔

یہ کام کمیٹی نے انتہائی خوبصورتی سے انجام دیا۔ تاہم مستقبل میں کیا ہوسکتا ہے اس بات پر کمیٹی کوئی واضح سفارش پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی اور نہ ہی یہ کمیٹی کے شرائط کار میں شامل تھا۔ تاہم کمیٹی نے تاریخی حقائق کی روشنی میں اس بات کا ادراک کیا کہ گلگت بلتستان کی سیاسی حیثیت کو یکسر تبدیل کرنا پاکستان کے لئے ممکن نہیں ہے جس کی وجہ بین الاقوامی معاہدوں کے علاوہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا تاریخی موقف ہے۔ اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کمیٹی نے سفارش کی کہ گلگت بلتستان کو سر دست ایک عارضی صوبہ تو بنایا جاسکتا لیکن مستقل صوبہ نہیں بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کی حیثیت کو مکمل تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
مقامی کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں اس وقت سرتاج عزیز کمیٹی نے اپنی ایک رپورٹ مرتب کی جس پر بعد ازاں عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ تاہم 2018 میں اس وقت ن لیگ کی حکومت نے گلگت بلتستان کو ایک آرڈر کی شکل میں ایک نیا انتظامی و سیاسی پیکچ دیا جو 2009 کے گورننس آرڈر سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ مگر اس میں تمام اختیارات وزیر اعظم کو دئیے گئے تھے جس کہ وجہ سے 2018 کا آرڈر متنازعہ بنا۔ مقامی لوگوں اور حزب اختلاف کے جماعتوں نے شدید احتجاج کیا اور پھر سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے اس کا فیصلہ 2019 میں اس وقت سنایا جب وفاق میں ن لیگ کی حکومت رخصت ہوئی تھی اور تحریک انصاف کی حکومت بنی تھی۔ جس پر سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ وہ آئندہ جی بی کے لئے جو بھی پیکیج تیار کرے اس کی سپریم کورٹ سے پیشگی منظوری کے بعد اس کا اطلاق کرے۔ اس دوران سپریم کورٹ نے 2018 کے آرڈر میں ترامیم کے ساتھ ایک آرڈر بھی تجویز کیا۔ وفاقی حکومت نے اس وقت نیا ڈرافٹ تیار کرنے کے لئے کورٹ سے مہلت مانگی۔ اس کے بعد تاحال نہ تو نیا مسودہ تیار ہوسکا نہ تو اس کا اطلاق ہوسکا۔ تاہم جی بی گورنینس آرڈر 2018 کا اطلاق اس علاقہ پر برقرار رہا۔ اس حوالہ سے گذشتہ مہنے گلگت بلتستان سپریم اپیلیٹ کورٹ نے بھی اپنا فیصلہ سنایا اور وفاق سے کہا کہ وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے 2019 کے فیصلہ پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ تاحال اس ضمن میں کوئی پیش رفت تو نہیں ہوسکی ہے۔ لیکن وفاق اور جی بی حکومت کا کہنا ہے کہ بہت جلد گلگت بلتستان عبوری صوبہ بنے گا جس پر مشاورت کا عمل جاری ہے۔

عبوری صوبہ کی تجویز وہی ہے جو مقامی ماہرین کی کمیٹی کی رپورٹ میں شامل ہے۔ تاہم وفاقی وزیر قانون فروخ نسیم نے اس کو آگے بڑھاتے ہوئے صرف آئین پاکستان کے چند شقوں میں بنیادی ترامیم تجویز کی ہیں جن کی مدد سے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنایا جاسکے گا۔ یہ ترامیم پہلے جی بی اسمبلی سے قرارداد کی شکل میں منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کی جائینگی۔ مگر اس میں مسئلہ یہ درپیش ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر نہیں ہیں۔

حالیہ دنوں ملک میں سیاسی ہلچل پر اپنا تجزیہ دیتے ہوئے صحافی حامد میر نے لکھا ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہی تو اپوزیشن جماعتیں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں کامیاب ہوجائینگی۔ حامد میر اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھتے ہیں کہ ایسی صورت میں آصف علی زرداری کو وزیر اعظم بنانے کا قوی امکان ہے۔ اگر زردای وزیر اعظم بنتے ہیں تو یوں گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا کام ایک دفعہ پھر پی پی پی کے ہاتھوں سر انجام پائے گا۔ ورنہ موجودہ صورتحال میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کے مسئلہ پر سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی نہیں جس کی وجہ سے یہ عمل مزید طول پکڑ سکتا ہے۔

تاہم تحریک انصاف کی خواہش ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا کام جلد سر انجام دے ۔ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے جتنا پی ٹی آئی کی حکومت سمجھتی ہے۔ کیونکہ اس کام کے لئے اسٹیبلشمنٹ، اپوزیشن اور حکومت کا ایک پیج پر آنا لازمی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ مسئلہ کشمیر سے متعلق مودی کے اقدمات کا موثر جواب دینے کی خواہش رکھتی ہے۔ لیکن اس کا طریقہ کار کیا ہوگا یہ فی الحال طے نہیں ہے۔

ادھر گلگت بلتستان کی قوم پرست جماعتیں، مذہبی سیاسی جماعتیں اور دونوں طرف کی کشمیری سیاسی قیادت جی بی کو کسی بھی قسم کے عبوری یا مستقل صوبہ بنانے کے حق میں نہیں ہیں وہ یا تو آزاد کشمیر کے ساتھ جی بی کو ضم کرنے کی بات کرتے ہیں یا آزاد کشمیر طرز کا ڈھانچہ کی بات کرتے ہیں۔

بہر حال جی بی سے متعلق کوئی بڑا فیصلہ لینا وفاق پاکستان کے لئے اتنا آسان نہیں ہے۔ لہذا عبوری صوبہ کے معاملہ میں کہا جاسکتا ہے کہ ہنوز دلی دور است۔


اسرارالدین اسرار گلگت بلتستان کے سینئر صحافی، کالم نگار اور حقوق انسانی کمیشن پاکستان کے کوآرڈنیٹر ہیں۔ وہ بام جہاں میں ‘قطرہ قطرہ ‘ کے عنوان سے باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے