میمونہ عباس
ابھی ایک اسٹیٹس پر نظر پڑی کہ یاسین میں پھر کہیں کسی نے خود کشی کی ہے۔
میں کبھی بھی نہیں چاہتی کہ زندگی سے بھرپور ان نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی موت کا سانحہ لکھوں جنہوں نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی موت کو گلے لگا کر ہمارے نام نہاد پڑھے لکھے معاشرے کے منہ پر طمانچہ مارنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ پچھلے چند ہفتوں میں غذر میں رونما ہونے والے حالیہ خود کشی کے واقعات کے تسلسل نے ہمارے اس خطے کے سوئٹزرلینڈ سے مشابہ ہونے اور حسنِ بے مثال ہونے جیسی کئی یوٹوپیائی بیانیوں کی اصلیت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ کیونکہ صرف خوبصورت آبشار، بلند و بالا پہاڑ اور نیلگوں جھیلوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے رکھنے سے علاقے جنتِ نظیر نہیں کہلاتے بلکہ اس کے لئے وہاں کی آبادی کا ذہنی، جسمانی، فکری اور نفسیاتی اعتبار سے آسودہ ہونا اہم ہے۔ اور ہماری گنہ گار آنکھون نے کچھ اور دیکھا ہو کہ نہ ہو مگر غذر میں پچھلے کئی سالوں سے نوجوانوں کو مسلسل موت میں جاتا دیکھ رہے ہیں، اور حیثیت ہماری کسی تماشائی سے ہر گز کم نہیں۔ حکومت کی طرف دیکھیں، سول سوسائٹی یا دیگر تنظیموں کی طرف، کہیں کسی طرف سے کوئی بھی ایسا قدم اٹھاتا نظر نہیں آتا جو اس مسئلے کی تہہ تک پہنچ سکے۔ بہت ہوا تو افسوس کرلیا، کانفرنس منعقد کی، ریسرچ پیپرز کا ڈھیر لکھ دیا یا پھر چند روزہ ورکشاپ۔۔۔جس میں ان لوگوں نے شرکت بھی نہیں کی ہوتی جن کے نام پر یہ سارا تماشہ لگا رہتا ہے۔
سو آئیے مل کر مان لیں کہ ہمارے ہاتھوں پر بھی ان خوبصورت زندگیوں کا خون لگا ہوا ہے۔
میرا ماننا ہے کہ ہر خودکشی کرنے والے کاقاتل کوئی بہت اپنا، کوئی پیارا ہی ہوتا ہے۔ پھر کیوں لعن طعن مرنے والے کےحصے میں آتی ہے؟ وہ تو آخری سانس تک اس امید پر لڑتا رہا ہوگا کہ اس کی سنی جائے گی، کوئی اس کا بھی ہاتھ تھام کر ناامیدی کے اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاکھڑا کردے گا۔۔۔ مگر نہیں! ہم اپنی بے حسی کے ہاتھوں اس قدر پست ہوچکے ہوتے ہیں کہ اپنے مقتول کے گرد تاریکی کا ہالہ گہرا کیے جاتے ہیں۔ اتنا گہرا کہ اسے اپنا وجود تک دکھائی دینا بند ہوجاتا ہے اور موت واحد سہارا دکھائی دینے لگتی ہے۔ اور جہاں موت سے انسیت اور تاریکی سے لگاؤ بڑھے وہاں امیدیں تھک کر ہار جاتی ہیں، گویا زندگی ہار جاتی ہے۔لیکن کیا آپ نے کبھی زندگی ہارتے اس شخص کی آنکھوں کا خالی پن محسوس کیا ہے؟ یا پھر کبھی خود کو رفیق، دوست، باپ، بھائی، بہن یا ماں کی بجائے قاتل بنتے دیکھا ہے؟ ایک ایسا قاتل جس کے سامنے زندگی لمحہ لمحہ ریت کے ذروں کی مانند بکھرتی رہی لیکن اس نے سمیٹنا تو کجا اسے بکھرتے دیکھنے کی زحمت تک نہیں کی کہ اسے وہ احساس ہی عطا نہیں ہوا۔ اور پھر مرنے والے سے کیسے پوچھوں کہ بتا کون تھا وہ جس نے زندگی پر سے تمہارے اعتماد کو یوں ریزہ ریزہ کیا کہ رشتوں کو پرکھنے کی بجائے تم موت کو گلے لگانے پر آمادہ ہوئے؟
مگر مرے ہوؤں سے سوال نہیں پوچھا جاسکتا۔ انہیں گواہ نہیں بنایا جاسکتا کہ کہیں یہ وہ تو نہیں جس پر تم نے اعتماد کیا تھا؟ یا پھر وہ جس سے امیدیں باندھییں کہ تمہارے اندر کی بڑھتی گھٹن کا علاج کرے گا؟ کہیں یہ وہ تو نہیں جس کے ساتھ زندگی کی رنگینیاں دریافت کیں یا وہ جس نے ہاتھ تھام کر تمہیں کبھی زمانے کے ساتھ چلنے کا گر سکھایا تھا؟ اب تو بس ہر طرف سوال بکھرے رہتے ہیں۔ کب کہاں کون کیسے خود کو زندگی سے آذاد کردے پتہ نہیں چلتا۔۔۔گویا زندگی واقعی فلم تھی، مرضی کے مناظر نہ دیکھ پانے پر روک دی۔۔۔ضائع کردی۔۔۔
کیوں قتل کرنے والوں کو ادراک نہیں ہوتا کہ مرنے والوں کی جانیں لینے میں وہ برابر کے حصے دار ہیں۔ بھلے ہاتھ ان کے ہوں،مرضی بھی انہی کی ہو مگر حالات کو اس نہج پر لانے والے وہ اکیلے ہر گز نہیں ہیں۔ جانتی ہوں کئی لوگ اتفاق نہیں کرتے اس بات سے کہ خودکشی کرنے والوں کو مظلوم ٹھہرایا جائے۔۔۔مگر مجھے یہ کہنا ہے کہ ہاں وہ ہوتے ہیں مظلوم! انہیں مدد درکار ہوتی ہے بھلے وہ مانگیں یا نہ مانگیں، انہیں علاج کی بھی ضرورت ہوتی ہے چاہے آپ کو وہ بیمار لگیں یا نہ لگیں کہ نفسیاتی و ذہنی لحاظ سے صحت مند نہ ہونا بھی اتنا ہی تکلیف دہ ہے جتنا کہ جسمانی طور پر! سو بیمار سے کیا لڑنا، اور کیون اسے مطعون ٹھہرانا؟ ہماری عمومی بے حسی کا اور کیا بیان ہو کہ جو جان سے گزر گیا اس کے حصے میں مر کر بھی لعنت ملامت آئی۔ سوچیے گا ضرور۔۔۔کیوں اور آخر کب تک ہم اپنی بے حسی اوردرشت رویوں سے اپنوں کو مارتے رہیں گے کیونکہ کوئی بھی انسان اپنی کسی حس کی تسکین کے لیے خود اپنی جان نہیں لیتا بلکہ یہ زندگی ہی ہوتی ہے جو ہم ان کے لئے اجیرن کئے جاتے ہیں۔۔۔اتنا کہ موت زندگی پر بھاری پڑ جاتی ہے۔
ارے ہاں پوچھنا تو یہ بھی ہے کہ کیا ہر واقعہ خودکشی ہی ہے؟؟؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ غیرت مندی کے ٹھاٹھیں مارتے جذبات کے آگے انسانی زندگیاں بے وقعت تنکوں کی طرح بہے جاتے ہیں؟؟