Baam-e-Jahan

میرے دل پر بیتنے والی ایک جنگ بیتی

فرنود عالم


میرا چترال سے آبائی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے مجھے اس کتاب پر تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔ میرا کتاب کے مترجم سے تعلق ہے۔ اس لیے کچھ نہ کچھ لکھنے کا حق تو مجھے حاصل رہنا چاہیے۔اس حق کا حق دار اس لیے بھی ہوں کہ میں ان قارئین میں سے ہوں جنہوں نے یہ کتاب اشاعت سے پہلے پڑھ لی ہے۔


اس کتاب کے کچھ مقامات تو میں نے کتاب کا دوبارہ ترجمہ ہونے سے بھی بہت پہلے پڑھ لیے تھے۔ دوبارہ ترجمہ مطلب؟ کوراغ میں کیپٹن روز کے دستے نے ہزیمت اٹھائی تو بھاگ کر اس نے بونی میں پناہ لی تھی۔ ہندو کُش کے سلسلوں میں سمٹے ہوئے اسی بونی میں کتاب کے مترجم سے میری کئی سنگتیں ہوئیں۔ پہلی ہی سنگت میں مترجم نے خبر دی کہ انہوں نے لفٹننٹ ولیم جارج لارنس کی کتاب کا ترجمہ کیا تھا، مگر سارا مواد کمپیوٹر سے اڑ گیا ہے۔یہ سن کر دل بیٹھ سا گیا۔تخلیق کار کی تخلیق کے یوں ضائع ہوجانے کا دکھ وہ ماں سمجھ سکتی ہے جس کے وجود میں پھوٹنے والا غنچہ خوشبو دینے سے پہلے مرگیا ہو۔
اس کے بعد سے کئی دن تک مترجم سے صحبت رہی۔ ہم نے ریشن سے لاسپور تک کا سفر ساتھ کیا۔ ریشن پہنچ کر بتایا، یہ وہ علاقہ ہے جہاں محمد عیسٰی نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر لیفٹننٹ ایڈورڈز اور لیفٹننٹ فولر کو اپنی قید میں لے لیا تھا۔ مستوج سے ذرا پہلے گاڑی سے اتر کر دریا کے اُس پار وہ چٹان بھی دکھائی جس کی آڑ لے کر جارج لارنس نے سامنے کے قلعے میں موجود مورچوں کا نقشہ بنایا تھا۔ یہی وہ مقام تھا جہاں گلگت سے چترال کی طرف جانے والی فوج کو مزاحمت کا سامنا ہوا تھا۔
ایک شام ہرچین میں ہم دریا کے کنارے بیٹھے تھے کہ دو دروں کی طرف اشارہ کرکے ایک دوست نے کہا، یہ راستہ ہے جو چترال کے سب سے بڑے نالے بشقر گول کی طرف نکلتا ہے۔ یہ دو رات کا پیدل سفر ہے جو یہاں سے کچھ آگے سُر لاسپور سے شروع ہوتا ہے۔ پھر مترجم نے کہا، کرنل کیلی کے دستے شندور کے برف زاروں کو عبور کیا تو سیدھا سُر لاسپور میں ہی اترا تھا۔ برف کی شدت اور بلندی کی سطح نے ان کی بینائی ماردی تھی۔
اگلے برس جب گلیشئیر پگھل رہے تھے اور پھول کھِل رہے تھے، میں کچھ فطرت پسند دوستوں کے ساتھ دِیر کے پہاڑوں سے چلا اور آٹھ راتوں میں بشقر گول سے ہوتا ہوا سُر لاسپور پہنچا۔ اس ایک برس پہلے انہی دوستوں کے ساتھ سوات سے چھ راتوں کا پیدل سفر کاٹتے ہوئے گلگت کے تقریبا آخری گاؤں ہندرب میں اترا تھا۔ عید کی چھٹیوں میں شمال کے انہی راستوں میں یہاں وہاں بھٹکتا رہا۔ ان سب سے گزر کر اب یہ ترجمہ پڑھ رہا ہوں تو کئی حوالوں سے کہانی کا حصہ بنتا چلا جا رہا ہوں۔ کہانی پڑھ ہی نہیں رہا، محسوس بھی کر رہا ہوں۔ کسی سطر سے گزروں تو مترجم کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ بات پر اضافی گرہ لگاتے ہوئے دوست بھی دکھائی دیتے ہیں۔ سو، میں کہہ سکتا ہوں یہ کتاب میں نے پڑھی ہی نہیں ہے، ایک طرح سے مجھ پر بِیت بھی گئی ہے۔
کتاب کو پڑھتے ہوئے ایک نیم سیاح (اور پورے دوست) کے طور پر جب دھیرے دھیرے واقعات میں شامل ہورہا تھا تو ایک جگہ اچانک چونک گیا، ارے یہ کیا؟ کہانی میں تو سچ مچ کا ایک سیاح نکل آیا۔ یہ جارج ہیوارڈ ہے جو دنیا گھومتا ہوا شمال کے پہاڑوں میں پہنچا اور گرفتار ہوگیا۔ جنگ چھڑ جائے تو اعتبار ختم ہوجاتا ہے۔بے اعتباری کے موسم میں کچھ خواہشیں بے موت ماری جاتی ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ مترجم سے ایک ملاقات گلگت کے علاقے گاہکوچ میں بھی تو ہوئی تھی۔ عید کی صبح ہم ایک پہاڑی پر بیٹھے تھے جب ایک دوست نے یاسین نامی علاقے کا ذکر چھیڑا۔ مترجم نے بتایا، یہی وہ علاقہ ہے جہاں جارج ہیوارڈ کو قتل کیا گیا تھا۔ اگلے ہی دن میں یاسین پہنچا جہاں دوستوں نے مقام کی نشاندہی کرتے ہوئے اس واقعے کی مزید تفصیل بیان کی۔ بتایا گیا کہ جارج نے فیصلے والی رات صبح تک کی مہلت مانگی تھی۔وہ آخری بار قدرت کے مناظر دیکھنا چاہتا تھا۔ صبح روشنی پھوٹنے کےساتھ اس کی زندگی کا سورج غروب ہوگیا۔ جنگ کتنی بری چیز ہے۔ سورج قتل ہوجاتے ہیں چاند تارے ٹوٹ جاتے ہیں۔
یہ کتاب دراصل استعمار کی جارحیت اور دراندازیوں کا روزنامچہ ہے۔ یہ کرنل کیلی کی کمان میں نکلے ہوئے اس دستے کی کہانی ہے جو قلعہِ چترال میں محصور اپنے ساتھیوں کو چھڑوانے کے لیے نکلا تھا۔ یہ کہانی اور بھی دلچسپ ہوسکتی تھی اگر اس دستے کو ہر دو میل کے بعد خون ریز مزاحمت کا سامنا ہوتا۔ دستے میں شامل خون خوار توپچی کیپٹن سٹیوارٹ یہی شکایت کرتا ہوا دنیا سے گزر گیا کہ چترال کے لوگوں نے جنگ کا موقع نہیں دیا۔ کھانے کو شاپِک تو بہت ملا، پینے کو خون نہیں ملا۔
اقبال کی ترتیب میں شمشیر و سنا اوّل ہے اور طاؤس و رباب آخر ہے۔ چترال کی ترتیب میں طاؤس و رباب اوّل ہے اور طاؤس و رباب ہی آخر ہے۔ انہیں بندوق پکڑا دو تو یہ خوبانی کا پھول توڑ کر اس کی نال میں اٹکا دیتے ہیں۔ گاہے یہ سِتار کی تاریں ادھیڑ کے بندوق کی نال اور دستے کے بیچ اٹکا دیتے ہیں۔ میدان کی طرف جانے کی بجائے دریا کی طرف نکل جاتے ہیں۔ محبت کے گیت گاتے ہیں اور بہار کے دُھن بکھیرتے ہیں۔ گولی کو سیاہی میں ڈبو کر شعر لکھتے ہیں۔ محنت سے کیے ہوئے ترجمے کا مواد ضائع ہوجائے تو دل چھوٹا نہیں کرتے۔ پھر سے کردیتے ہیں۔

One thought on “میرے دل پر بیتنے والی ایک جنگ بیتی

  • کتاب "گلگت سے چترال تک” چترال شہر میں Northern Book Bank & Stationers پر دستیاب ہے۔
    دوسرے علاقوں کے دوست دیے گئے نمبر پر رابطہ کرکے ایزی پیسہ کے زریعے کتاب کی قیمت اور 120 روپے کا ڈاک خرچ ٹرانسفر کرکے کتاب حاصل کرسکتے ہیں۔
    ہم عنقریب گلگت میں کتاب کی دستیابی کے لیے کوشش کریں گے مگر تب تک گلگت اور چترال شہر سے باہر کے تمام احباب کتاب بذریعہ ڈاک منگوا سکتے ہیں۔
    ڈسکاؤنٹ قیمت 450 روپے
    ڈاک خرچ 120 روپے
    رابطہ# 03469181033
    ایزی پیسہ اکاؤنٹ#03469181033 ; Mustafeez Ur Rehman
    ملنے کا پتہ: ناردرن بُک بنک اینڈ اسٹیشینرز، پولو گراؤنڈ روڈ، نزد مائیکرو فائنانس بنک چترال
    #گلگت_سے_چترال_تک

    Reply

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے