194

چترال کی تاریخ نگاری کے پُراسرار نشیب و فراز کی کہانی


چوتھی بین الاقوامی ہندوکش ثقافتی کانفرنس کے کچھ چیدہ تحقیقی مقالہ جات اور سینئر محققین کے کلیدی خطابات کے خلاصے اردو ترجمہ کے ساتھ نذر قارئین کرنے کی جسارت کروں گا۔ امید ہے ایسی کوششوں سے نوجوانوں میں صحت مند مکالموں اور تحقیق کی تحریک پیدا ہو سکے۔


اس سلسلے میں آج پہلے کلیدی خطاب کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔


     تحقیق کار: پروفیسر البرٹو کاکوپارڈو ،اٹلی

#Professor_Alberto_Cacopardo

ترجمہ: ظہور دانش


انگریز چترال کی تاریخ کے بارے میں اتنے کنفیوز کیوں تھے کہ جب انیس سو اٹھائس کا گزیٹئیر مرتب کرنے کی بات آئی تو انہوں نے نو آبادیاتی دور سے پہلے کے دور سے نمٹنے کا کام یکسر ترک کر دیا

اور اٹھارہ سو پچاسی میں لاک ہارٹ کے دورے سے ہی چترال کی تاریخی داستان کا آغاز کیا؟ اور ایسا کیوں ہے کہ آج تک برطانوی دور سے پہلے چترال کی تاریخ کی کوئی معتبر داستان دستیاب نہیں ہے؟

اس مقالے میں چترال کی قبل از نوآبادیاتی تاریخ کی مختلف شائع شدہ داستانوں کے ماخذ، ان کے باہمی انحصار کی تشکیل نو اور ضلع (چترال) کے مختلف حصوں کی زبانی روایات کے ساتھ ان ماخذ کے باہمی تعلق پر بحث کی گئی ہے۔

اس طرح کی زبانی روایات، جو گزشتہ ایک سو پچاس سالوں میں مختلف اوقات میں تحریری طور پر درج کی گئی ہیں، درحقیقت اِن تاریخی تعمیر نو کی تشکیل میں سب سے زیادہ متعلقہ عنصر ہیں۔

مختلف دہائیوں کے فیلڈ ورک (عملی تحقیق) پر مبنی یہ مقالہ چترال میں زبانی روایات کی ترسیل کے طریقہ کار اور ان زبانی روایات کی سماجی اہمیت پر بحث کرتا ہے۔

اس مقالے میں چترال کی کثیر اللسانی جنوبی وادیوں میں موجود روایات اور کھوار بولنے والے علاقوں (خصوصاَ بالائی چترال) کی روایات میں قابلِ مشاہدہ تنوع کے درمیان گہرے فرق کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔

تاہم، برطانوی نوآبادیاتی افسران کا یہ خیال درست نہیں تھا جب انہوں نے یقین کیا کہ چترال میں قبل از نوآبادیاتی واقعات (انگریزوں کی چترال امد سے پہلے کے واقعات) کا کوئی مقامی تحریری ریکارڈ موجود نہیں تھا۔

محمد سیر کی کتاب "شاہ نامہ سیر” کی حالیہ بازیافت چترال کی تاریخ نویسی کی تشکیل کے عمل پر نئی روشنی ڈالتی ہے۔

اٹھارہ سو کی دہائی کے اوائل میں لکھی گئی یہ منظوم کتاب محترم شاہ کٹور ثانی کے زمانے کے واقعات اور خوشوقت شہزادہ خیراللہ کے ساتھ اس کے تنازعات کو بیان کرتی ہے۔

اس مقالے میں اس اہم کتاب میں بیان کردہ پر اسرار تاریخی نشیب و فراز کی تشکیل نو کی گئی ہے۔ یہ کتاب اپنی پیدائش کے فوراً بعد منظر سے غائب ہو گئی اور انگریزوں کے ہاتھوں اور کانوں تک نہ پہنچ سکی۔

چترال کی تاریخ کے اپنے بیانیے میں، جان بِڈالف نےاس منظوم کتابچے میں بیان کیے گئے واقعات کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے، جو درحقیقت تاریخ کے اُس موڑ کے اہم ترین مرحلہ تھے، اور یقیناً اس علاقے کی سیاسی اور سماجی نشونما پر سب سے زیادہ دیرپا اثرات مرتب کیے ہوئے تھے۔ وہ اثرات آج تک زندہ و موجود ہیں۔

اس کے باوجود، اس منظوم کتابچہ کا چترال کی تاریخ نویسی کے بعد کی پیشرفت میں ایک کردار تھا، جو (تاریخ نگاری) انگریز افسروں اور حکمران خاندان کے مشترکہ اثر میں نمایاں ہوئی۔ یہ مقالہ اٹھارہ سو عیسوی کی دہائی کے آخر میں مرزا محمد غفران کے اصل کام (تاریخ نگاری) سے لے کر بعد کے دور کی پیشرفتوں کی تشکیل نو کرتا ہے،

جو حیرت انگیز پے درپے تحقیقات، غلطیوں، نظرثانی، غلط فہمیوں اور ہیرا پھیری کا مجموعہ ہیں، اور جس میں مغربی و مقامی مصنفین دونوں کا کردار ہے۔ مغربی و مقامی تاریخ نگاروں کے کام کے امتزاج نے حقیقت اور تخیل کا وہ حیران کن مرکب پیدا کیا ہے جو طویل عرصے سے چترال کی تاریخ کے طور پر بڑے پیمانے پر قبول کیا گیا ہے۔

مگر آج وہ سارا کام ماضی کا حصہ اور قصہء پارینہ بن چکا ہے۔ موجودہ وقت چترال کی تاریخ نگاری کے ایک نئے دور کے آغاز کے لیے مناسب وقت ہے، جس میں ہم امید کر سکتے ہیں کہ مقامی اسکالرز اور غیر ملکی محققین کے کام دنیا کے اس پُر اسرار کونے کے دلچسپ ماضی پر بہتر روشنی ڈالنے کے لیے یکجا ہو نگے۔

محقق کا تعارف: پروفیسر البرٹو کاکوپارڈو اٹلی کے فلورنس یونیورسٹی میں انتھرپالوجی کے پروفیسر ہیں۔ انیس سو ترہتر سے لے کر آج تک انہوں نے چترال سے متعلق مختلف موضوعات میں طویل المیعاد تحقیقی کام کیا ہے جو کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ ان موضوعات پر اُنکے کئی ایک تحقیقی مقالے اور کتابیں شائع ہو چکے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں