تحریر: سمیع اللہ
ضلع دیامر کا نواحی گاؤں تھور شدید مسائل کا شکار ہے۔ میں یہاں چند مسائل آپ احباب کی نذر کروں گا۔ تھور تیس ہزار نفوس پر مشتمل واد ی ہے جس کے لیے ایک ہی ہسپتال ہے مگر اس میں کسی قسم کے علاج معالجے کی سہولت میسر نہیں ہے ۔ غریب عوام بہت مشکل میں ہیں مگر کوئی پرسانِ حال نہیں ۔ حکومت اس پر قدم اٹھانے کے لیے تیار ہے نہ کوئی غیر سرکاری تنظیم اس مسئلے سے باخبر ہے۔ صورت حال اس قدر مایوس کن ہے کہ بس ایک ہی راستہ نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ پھیلا کر گڑگڑا کر دعا مانگی جائے کہ وہی یہاں کے لوگوں پر رحم کرے کیونکہ حکمران غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔
اسلئے عوامی نمائندوں اور انتظامیہ سے گزارش ہے کہ تھور کے ہسپتال کو جلد ازجلد اپ گریڈکرکے غریبوں کو علاج معالجے کا بنیادی حق فراہم کیا جائے ۔
دوسرامسئلہ روڈ کا ہے۔ یہاں کی سڑک بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہےمگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ایوان میں بیٹھے نمائندوں کو غریب عوام کی فکر ہی نہیں کہ وہ کتنی اذیت کا شکار ہیں ۔ تھور میں بعض مقامات ایسے ہیں کہ روڑ نہ ہونے کی وجہ سے عوام پیدل چلنے پر مجبور ہیں ۔ جو سڑکیں موجود ہیں ان کی حالت بھی ابتر ہے۔اس کے علاوہ جابجا سینکڑوں تجاوزات نے زندگی محال کررکھی ہے۔ سڑک کی دیکھ بھال کیلئے قلیوں کی تعداد انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے مذکورہ وادی کے لوگوں کو شدید سفری مشکلات کا سامنا ہے جبکہ دوسری جانب واپڈا کی جانب سے 5کلو میٹر ویلی روڑ کا اعلان بھی محض اعلان ہی رہا۔ ذمہ داران خواب خرگوش کی نیند سو رہے ہیں انہیں اپنی کمیشن اور ناجائز دولت کے حصول کی عادت نے اپنی ذمہ داریوں سے غافل کر رکھا ہے۔ موجودہ صورتحال برقرار رہی تو مقامی لوگ شاہراریشم پر پوری قوت کے ساتھ دھرنا دینے پر مجبور ہونگے جس کی تمام تر ذمہ داری انتظامیہ اور متعلقہ اداروں پرعائد ہوگی۔ ۔ لہذا حکام بالا سے گزارش ہے کہ تھور کے عوام کی داد رسی کی جائے۔
تعلیم کے بغیر اقوام کی ترقی محال ہے۔ بدقسمتی سے سرزمین دیامر ایک طویل عرصہ تعلیم کی نعمت سے محروم رہی۔یہاں کچھ لوگ مروجہ تعلیم کو حرام سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع کے برعکس تعلیم کو فروغ نہ مل سکا ۔البتہ چند سالوں سے عمومی طور پر ضلع دیامر میں تعلیم پر کافی کام ہوا ہے اور ہورہا ہے۔ البتہ میرا گاوں تھوراب بھی اسی ناخواندگی کا شکار ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ اس کے عوامل کیا ہیں لیکن کسی بھی ادارے یا نظام کو بہترین انداز میں چلانے کے لیےشفافیت اور احتساب کا نظام ضروری ہوتا ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ تھور میں تمام اسکولوں کے اندر امتحانات کا نظام درہم برہم ہے۔ بورڈ کے امتحانات میں اساتذہ خود پرچے حل کر کے بچوں کو تھماتے ہیں۔ ایسے میں اس نظام کی بہتری کی امید خام خیالی ہے، لہٰذا باقی تمام کمزور پہلوؤں پہ بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنے تمام اساتذہ کرام سے عاجزانہ اپیل کریں کہ وہ اس نظام کو تبدیل کریں اور امتحانات کو جس مقصد کے لیےمنعقد کیا جاتا ہے وہ مقصد پورا کیا جائے ورنہ سال بھر بچے اس امید پر محنت نہیں کریں گے کہ ان کا اگلی جماعت میں پہنچنا محنت کے بغیر بھی ممکن ہے۔ تھور کے تمام اساتذہ سبجیکٹ اسپیشلسٹ ہیں اور سب ہمارے لیے قابل قدر ہیں البتہ انچارچ کی حد تک اس نظام میں فوری طور پر تبدیلی وقت کی صرف ضرورت ہی نہیں بلکہ فرض بن چکا ہے۔
آخر میں دیامر بھاشا ڈیم کے متاثرین کے مسائل ابھی تک حل طلب ہیں۔ واپڈا نے واپڈا کالونی تھور کے متاثرین کے ساتھ 2010 میں معاہدہ کیا تھا جو آج تک پورا نہیں ہوسکا۔ متاثرین نے جو زمینیں واپڈا کو دی تھیں، وہ زرعی زمینیں تھیں۔ واپڈا نے ان کے عوض ان متاثرین کے لیے 300سو بوری گندم کا الگ کوٹہ مقرر کرنا تھا وہ آج تک پورا نہ ہوسکا ۔اس کے علاوہ 30 بیڈ ہسپتال کا قیام اور متاثرین کو مفت علاج کی فراہمی، ایک سے دس سکیل تک مقامی افراد کی ملازمتوں پر ایڈجسٹمنٹ او سی بی سکیم کے ذریعے یہاں کے لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری لانے کا وعدہ کیا گیا تھا جس پر کوئی عمل درآمد نہ ہوسکا۔ اس کے علاوہ واپڈا نےکالونی کے متاثرین کے بچوں کو مفت تعلیم، اور انھیں ایک کنال مفت اور چار کنال زرعی زمین دیناتھی۔ دیامر بھاشہ ڈیم کیلئے سب سے زیادہ قربانیاں تھور کے لوگوں نے دی تھیں مگر ان لوگوں کے ساتھ کیے گئے وعدےابھی تک وفا نہ ہوسکے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سمیع اللہ کا تعلق تھور دیامر سے ہے اور وہ تحریک جوانان پاکستان،گلگت بلتستان کے چیف آرگنائزر ہیں۔
فیچر فوٹو@https://www.facebook.com/ThorDiamer