Baam-e-Jahan

آغاخان میڈیکل سینٹر گلگت میں رابطہ کار کو بہتر بنانے کی ضرورت

کالم قطرہ قطرہ

تحریر: اسرارالدین اسرار

Opened in 2016, this is one of 80+ Aga Khan Health Service centres and clinics in Gilgit-Baltistan and Chitral. Photo by AKHS-P

ستم ظریفی ہے کہ ہم کسی مسٗلہ پر لکھتے ہیں تو لوگ اصل مدعا کو سمجھے بغیر سقراط بن کر بحث میں کود پڑتے ہیں اور الم  غلم لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ہمارا پرانا تجربہ ہے کہ ایک تحریر کو سمجھانے کے لئے ایک اور تحریر کی زحمت اٹھانی پڑتی ہے۔

گذشتہ دنوں آغاخان میڈیکل سینٹر گلگت میں ایک بچی اور ان کے والدین کے ساتھ پیش آنے والے ایک واقع کا ذکر میں نے اپنی تحریر میں کیا تھا۔ اس تحریر میں کسی بھی فرد کا نام نہیں لیا گیا تھا نہ ہی یہ کہا گیا تھا کہ کسی مخصوص فرد کو اس کا ذمہ دار ٹہرا کر اس کو سزا دی جائے۔ گزارش صرف اتنی کی گئ تھی کہ نظام کو ٹھیک کیا جائے۔ یہ ایک سچا اور حقیقی واقعہ ہے جس کا میں خود عینی شاہد ہوں۔ میں معاشرہ کا ایک ذمہ دار فرد ہوں میں بلاوجہ کسی پر تنقید یا جھوٹا واقعہ بیان نہیں کر سکتا ہوں۔ اس واقعہ کے تناظر میں جن  مسایل کی نشاندہی کی گئ ہے اس میں مندرجہ ذیل نکات شامل ہیں۔

١۔ اگر ڈاکٹر سیٹ پر موجود نہیں تھی اور زیادہ وقت کے لئے باہر گئ تھی تو مریض کو اس بارے میں آگاہ کیوں نہیں کیا گیا؟

٢۔ ڈاکٹر نے جانے سے قبل سٹاف کو واپس آنے کا صحیح وقت کیوں نہیں بتایا؟

٣۔ مریض کو تکلیف کی حالت میں دو گھنٹوں تک انتظار میں کیوں رکھا گیا؟

۴۔ مریض کو او پی ڈی میں طویل انتظار کے بعد ایمرجنسی کیوں بھیجا گیا؟ ایمرجنسی سے دوبارہ او پی ڈی کیوں بھیجا گیا؟

۵۔ بچی کو ڈائیریا اور فوڈ پائزننگ کی شکایت تھی۔ پیچس  اور قعے سے نڈھال ہوگیٗی تھی جوکہ جسم میں پانی اور نمکیات  کی کمی کی صورت میں جان لیوا  بھی ہوسکتی تھی۔ اس تکلیف کو بیان کرنے کے باوجود انتظار میں کیوں رکھا گیا؟

اس کہانی کے اندر جس غلطی کی نشاندہی ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ہسپتال کے تمام  شعبوں کا آپس میں رابطہ کاری کا فقدان ہے۔ سٹاف ڈاکٹروں کے آنے اور جانے کے وقت سے آگاہ نہیں ہیں۔ مریض کو پیشہ ورانہ انداز میں سلوک کرنے کی بجائے روایتی طریقہ کار سے کیا جاتا ہے۔ لوگوں کی شکایات کے ازالہ کے لئے کوئی ڈیسک موجود نہیں ہے۔ مریض کی حالت کو دیکھ کر اس کے ساتھ ہمدردی اور توجہ سے پیش آنے کا ہنر نہیں آتا۔ مریض اور اٹینڈنٹ کو درست معلومات دینے کا کوئی وسیلہ موجود نہیں ہے۔

اس مسٗلہ کو سوشل میڈیا میں بتانے کا مقصد کسی فرد یا ہسپتال کو بدنام کرنا نہیں ہے بلکہ  آئندہ اس  قسم  کی صورتحال  کو پیش انے سے روکا جائے۔ ہسپتال کے تمام  شعبوں اور ڈاکٹرز کا آپس میں بہترین  روابط کار  ہونی چاہئے۔ تاکہ مریض اور ان کے اہل خانہ ذہنی کوفت سے بچ سکیں۔

اس مسٗلہ کو بیان کرنے کے بعد ہسپتال کی ایڈمنسٹریشن کا اس بات پر زور دینا سمجھ سے بالاتر ہے کہ مریض یا اس کے والدین یا لکھنے والا فرد ایڈمنسٹریشن کے پاس کیوں نہیں آیا؟ جناب مریض تکلیف میں ہو تو ان کے اہل خانہ  کی پہلی کوشیش یہ ہوتی ہے کہ ڈاکٹر  سے رجوع کریں اور ان کو تلاش کریں نہ کہ انتظامیہ کے اہلکاروں کو ۔ اتنا ساراعملہ  وہاں موجود ہونے کے باوجود ڈاکٹر کو کیوں نہیں بلایا گیا؟ ہر فرد انتظامیہ کے افسران کو نہیں جانتاہے نہ ان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایڈمنسٹریشن نامی  چیزبھلا کہاں تشریف فرما ہوتی ہے۔

لکھنے والے نے ایڈمنسریشن تک اپنی بات پہنچانے کے لئے ہی ایک مہذب انداز میں کسی فرد کا نام لئے بغیر ایک واقع بیان کرنے کے لئے سوشل میڈیا کا سہارا لیا ہے۔ ایڈمنسٹریشن کو چاہئے کہ لوگوں کو اپنے پاس بلانے کی بجائے ریسیپشن کے ساتھ ایک شکایات سیل بناکر وہاں ایک سینئر فرد کی ڈیوٹی لگا دی جائے۔ شکایات کا بکس لوگوں کا مسٗلہ سن کر اس کا فوری حل تو نہیں بتا سکتا ہے ۔ کسی مسٗلہ کی نشاندہی پر ان کو ایسے فرد کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہئے جو کسی قانونی چارہ جوئی، فساد یا جھگڑے کی بجائے مہذب انداز میں ایک اہم مسٗلہ کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔

 ادارے جذبات سے نہیں عقل سے چلائے جاتے ہیں۔ تنقید برائے اصلاح سے ادارے بہتری کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ انسان اور ادارے کبھی بھی غلطیوں سے مبرا نہیں ہوتے ہیں۔ ایسی غلطیوں کی جب تک نشاندہی نہیں ہوگی بہتری کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے۔ لہذا اس مسٗلہ میں بات کرنے سے پہلے ایڈمنسٹریشن اور جی ایم سی کے ملازمین کو چاہئے کہ وہ ٹھنڈے دماغ سے اس پر غور کریں اور آئندہ کے لئے ایسی غلطیوں کا ازالہ کریں۔ جی ایم سی کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے والوں کو سمجھنا چاہئے کہ اس تحریر کے شروع میں جی ایم سی کی خدمات کی تعریف کی گئ ہے اور اس کے بعد ایک مسٗلہ کی نشاندہی کی گئ ہے۔ میں ذاتی طور پر وہاں کے کچھ بہترین ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل سٹاف اور نرسسز کو جانتا ہوں اور ان کی خدمات کو سراہتا ہوں۔ ڈاکٹر رحمان جیسا فرشتہ صفت انسان کی تعریف نہ کرنا نا انصافی ہوگی۔ میں ہر دفعہ اس ادارے کی خدمات کو سراہتا رہاہوں مگر اس دفعہ پیش آنے والا واقع اور دیگر شکایات میرے لئے افسوسناک ہیں۔

اس ادارے کے حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ خالصتا ایک پرائیوٹ اور کمرشل ادارہ نہیں ہے۔ اس کے لئے کمیونٹی نے زمین اور دیگر مدوں میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اس لحاظ سے یہ کمیونٹی کی پراپرٹی ہے۔ اس لئے اس ادارے کی ایڈمنسٹریشن کو زیادہ جانفشانی سے کام کرنے اور ایک موثر پالیسی کے تحت اس کو چلانے کی ضرورت ہے۔ تنازعات اور مسائل کو عقلمندی سے حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ادارہ غیر ضروری مشکلات کا شکار نہ ہوجائے۔

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ پاکستان کے آئین اور قانون کی رو سے کسی بھی پرائیوٹ اور سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹروں اور عملہ کی غفلت کے نتیجہ میں مریض کو نقصان کا سامنا کرنے کی صورت میں سخت سزائیں مختص ہیں۔ 1860 PPC کا دفعہ 318 اور 304A  اسی سے متعلق ہیں۔ گلگت بلتستان میں ایسے کئ معاملات عدالتوں میں آج بھی زیر سماعت ہیں اور ان پر عدالتوں نے سخت ایکشن لیا ہے۔ لہذا اس معاملہ کو آنا کا مسٗلہ بنانے کی بجائے اس کے حل کی طرف بڑھا جائے اور آئندہ کے لئے اپنی کمزوریوں کو دور کیا جائے۔

اسرارالدین اسرار گلگت بلتستان میں حقوق انسانی کمیشن پاکستان کے کوارڈینیٹر ہیں اور سینر کالم نگار ہیں ۔ ان کی تحریریں بام جہاں کے صفحات پر باقاعدگی سے شایع ہوتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں