Baam-e-Jahan

راجہ گوہر امان اور ان کا دورِ حکومت

Gohar Aman

نور شمس الدین

چترالی، گوہر آمان اور علاقہِ یاسین کو جزو لاینفک سمجھتے ہیں۔ چترال میں سینہ بسینہ چلنے آنے والی تاریخی روایت کے مطابق 1590 میں مخترم شاہ اور ان کے بھائی شاہ خوشوقت نے پہلی بار رئیس خاندان سے اقتدار چھین کر کٹور اقتدار کی داغ بیل ڈال دی تھی۔ رئیسوں اور اُن کے درمیان وقتاً فوقتاً نوک جھوک ہوتی رہی تاہم رئیسوں سے نجات حاصل کرکے طاقتور ہوتے ہی خود کٹوروں کی اولاد آپس میں دست و گریباں ہوگئے۔

نور شمس الدین کے پچھلے کالم بھی پڑھیے؛

شمال مشرقی حملہ آور، ریشن کے قیدی اور کڑاک کے مفرور فوجی

مہاراجہ کشمیر، جارج ہیورڈ اور میر ولی

گریٹ گیم، چترال اور انگریزوں کی مداخلت

سنگین علی اول کے بیٹے محمد غلام کی خوشوقت کے بیٹے شاہ عالم کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد محلاتی سازشوں اور باہمی رقابتوں کا وہی سلسلہ چل نکلا کہ دونوں خاندانوں کے بہت تھوڑے حکمرانوں کو طبعی موت نصیب ہوئی۔ دونوں کی اولادیں مختلف اوقات میں تختِ چترال پر قابض رہے تاہم مستوج اور ورشگوم (موجودہ یاسین) ذیادہ وقت خوشوقت کے زیر اثر رہے جبکہ زیریں چترال کٹوروں کے زیرِ دست رہا۔

دونوں خاندانوں کی رقابتوں کی داستان خوفناک اور خونریز رہی۔ فرامرز شاہ خوشوقت اور شاہ افضل کٹور کے قصے ہو یا پھر کٹور مخترم شاہ ثانی اور خیر اللہ کی سترہ سالہ رقابتیں، گردنین کاٹنے اور موقع پرستی کے وہ قصے ہیں کہ ہلاکو خان اور مغل حکمران تک شرماجائیں۔

بحرحال انیسویں صدی میں مخترم شاہ کے ہاتھ خیراللہ کی گردن سمیت قلعہ مستوج تو آگیا مگر علاقے کا سکون خیر اللہ کے چچا زاد بھائی بادشاہ کے بار بار مستوج چھڑانے کی کوششوں کی وجہ سے غارت ہوا۔

بادشاہ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے مُلکِ آمان کی وجہ سے چترال و ورشگوم کے حالات بہتر ہونے کے آثار شروع ہوگئے۔ دونوں نے ماضی کی تلخیاں بھلا کر والئیِ گلگت سے معاہدہ کرکے پونیال تک کا علاقہ اپنے زیر اثر لے آئے. 1833 میں ملک آمان کی وفات کے بعد ان کے بھائی سلیمان شاہ نے ان کی جگہ لی۔

کچھ عرصے بعد یہی سلیمان شاہ مہتر چترال کے خلاف ہوگیا تو مہتر نے اُس کا کام تمام کروا کر مستوج مُلکِ آمان کے بیٹے میر آمان کو جبکہ ورشگوم دوسرے بیٹے گوہر آمان کو دیدیا. چچا کے قتل سے ناخوش گوہر آمان تخت نشین ہوتے ہی مہتر چترال کے خلاف ہوگئے اور ونوں کے درمیان چھپا چھپائی کا کھیل گوہر آمان کی تانگیر جلاوطنی اور میر آمان کی تخت نشینی پر منتج ہوا۔

سال 1837 میں مخترم شاہ کی وفات کے بعد گوہر آمان پھر حرکت میں آگئے اور اپنے بھائی میر آمان کو شکست دیکر 1840 میں ورشگوم کے اقتدار پر مکمل قابض ہوئے۔ یہاں سے آگے کی بیس سالہ داستان ماضی سے کافی مختلف ہے۔

گوہر آمان کی تخت نشینی کے وقت والئیِ گلگت مہاراجہ کشمیر کا باجگزار تھا اور مہاراجہ کی طرف سے ایک وزیر گلگت میں باقاعدہ تعینات ہوتا تھا. سادہ الفاظ میں آپ مہاراجہ کو ایسٹ انڈیا کمپنی اور گلگت کو 1717 کے بعد کا ہندوستان کہہ سکتے ہیں۔.

گوہر آمان کا یہ بیس سالہ دورِ حکومت اس لئے منفرد ہے کہ کٹور خاندان کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی مرتبہ کوئی حکمران اپنے بھائیوں کی گردنوں سے تلوار اٹھا کر بیرونی دشمن کی گردن پر رکھا تھا۔

گوہر آمان کو پتہ نہیں کیا سوجھی کہ وہ وقتاً فوقتاً گلگت پر حملہ آور ہوتا رہا. ان بیس سالوں میں چار بار حملہ کیا اور گلگت کو اس وقت تک اپنی عملداری میں رکھا جب تک کشمیر سے راجہ کی کمک کی روانگی کی خبر نہیں پہنچتی. یہ خبر آتے ہی گوہر آمان گلگت چھوڑ کر اپنے پایہ تخت یاسین واپس بھاگ جاتے اور ڈوگرہ فوج گلگت کا انتظام سنبھال کر پھر والئی گلگت کے حوالے کرکے واپس ہوتے۔.

البتہ 1852 میں گوہر آمان نے گلگت پر نہ صرف حملہ کیا بلکہ قبضہ کرنے کے بعد 1854 میں کشمیر سے گلگت کو چھڑانے کے لئے آئے ہوئے کرنل پھوپ سنگھ کو 1،500 ڈوگرہ افواج کے ساتھ گلگت سے نیچے پڑی کے مقام پر پھنسا کر نیست نابود کردیا۔ یہی جگہ آج کل بھوپ سنگھ پڑی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ البتہ یاسین اور گلگت والوں کے درمیان اس تاریخی واقعے پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ گلگت کے لوگوں کا خیال ہے کہ نہ صرف بھوپ سنگھ کو شکست قبائلی افواج نے دی تھی بلکہ اس واقعے کے فوراً بعد والئی گلگت کی سربراہی میں ہونے والے گلگت دربار میں گوہر آمان سمیت آمان الملک مہتر چترال سر زنش کر کے آئندہ یاسین سے نیچے آنے سے منع کیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ گوہر آمان کے بار بار ہونے والے حملوں کو مسلکی منافرت اور شیعوں کے خلاف گوہر آمان کی جارحانہ پالیسی کا شاخسانہ بھی قرار دیا جاتا ہے. تاہم یاسین والے نہ صرف اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں بلکہ گوہر آمان ہی کی زندگی میں ان کے چچا ذاد بھایئوں کا اسماعیلی مسلک اختیار کرنے اور گوہر آمان کی اس واقعے پر خاموشی کو اُن کی روشن خیالی اور مسلکی تعصبات سے مبرا ہونے کی سند کے طور پر پیش کررہے ہیں. وللہ اعلم

یاسین و چترال کی تاریخ یہ کہہ رہی ہے کہ گوہر آمان نے اپنے اقتدار کو پھیلانے کی خاطر 1852 میں گلگت پر قبضہ اور 1854 میں پوپ سنگھ کو شکست دینے کے بعد 1860 تک گلگت پر بلا شرکت غیرے نہ صرف حکومت کی بلکہ گوہر امان کا انتقال بھی انہی حالات میں ہوا۔ 1860 میں راجہ کشمیر زنبیر سنگھ کے حکم پر کرنل دیوی سنگھ کی قیادت میں فوج نے گلگت کی طرف پیش قدمی کی۔ اس سے پہلے کہ ڈوگرہ فوج گلگت پہنچ جاتی گوہر امان کا انتقال ہوا اور ان کے بڑے بیٹے راجہ ملک امان ورشگوم کا حکمران بن گیا۔.

کشمیری فوج کا سُن کر نئے حاکم وقت کے پیروں تلے سے زمیں نکل گیی اور وہ گلگت چھوڑ کر یاسین آیےٗ. لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا یے محض تین سال بعد جب گوہر آمان کی دہشت کم ہوئی تو کشمیری افواج نے یاسین والوں سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔.

یوں 1863 کے اوائل میں ہی کرنل بجھے سنگھ کی قیادت میں تین ہزار ڈوگرہ فوج نے یاسین پر یلغار کی. ان کے ساتھ عیسٰی بہادر، سابق حاکم پنیال بھی حملے میں شریک تھے۔ وہ گوہر آمان کے سوتیلے بھائی تھے جنہیں گوہر امان نے شکست دیکر پنیال سے نکالا تھا. کہنے والے کہتے ہیں کہ مُلک امان کو متوقع حملے کی خبر ملتے ہی یاسین کے جوانوں کو پہاڑوں پر تعینات کرکے بچوں اور خواتین کو قلعہ مُڈوری کے اندر بند کرکے درہ درکوت سے چترال امان الملک کے دربار میں کُمک مانگنے پہنچ گیا. مگر امان المک، مستوج کےحاکم غلام محی الدین کو یاسین کا حکمران دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے مدد سے انکاری ہوا۔ یوں مُلکِ آمان واپس جاکر قلعہ بند ہوگیا۔

اس دوران کشمیری فوج قلعے میں داخل ہوئی۔ ملک آمان فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے مگر کشمیری فوج نے قلعے کے اندر بچوں اور خواتین کو چیر پھاڑ کے رکھ دیا۔ کم و بیش 1,800 خواتین اور بچوں کو اس قلعے کے اندر نہایت ہی دردناک اذیتیں دیکر قتل کردیے گئے. یاسین کی زبانی روایات میں شیر خوار بچوں کو اُچھال کر تلواروں سے کاٹنے کے واقعات اب بھی موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یاسین میں آج بھی زیادہ بحث و تکرار کو "موڈوریو ژانگ غیریتامی” کہہ کر تضحیک کا نشانہ بنادیا جاتا ہے۔


نور شمس الدین کا تعلق چترال سے ہے۔ آپ درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں اور پی ایچ ڈی کے سلسلے میں قازقستان میں مقیم ہیں۔ چترال کی تاریخ سے متعلق آپ کے مضامین ہائی ایشیاء میں شائع ہوتے آرہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے