تحریر: اسرار الدین اسرار
شگر بلتستان میں ایک سپیشل ( معذور) بچی کے ساتھ مبینہ اجتماعی جنسی زیادتی کا واقعہ شرمناک اور دردناک ہے۔ مقامی میڈیا کی خبر کے مطابق شگر کے علاقے بوندو میں زیر تعمیر ریزوٹ کے مزدوروں کی جانب سے مبینہ طور پر ایک سپشل لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ مقامی پولیس کی جانب سے بروقت کاروائی کرتے ہوئے تمام ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق تمام ملزمان غیر مقامی ہیں جو زیر تعمیر ریزوٹ میں کام کرتے تھے۔
اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ واقعے میں ملوث ملزمان کی بروقت گرفتاری خوش آئند ہے۔ امید ہے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جائے گی۔
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ گلگت بلتستان میں افراد باہم معذوری کی تنظیم کے نمائندوں کے مطابق گلگت بلتستان میں ایسے کئی واقعات ہر سال رونما ہوتے ہیں جن میں افراد باہم معذوری کو جسمانی، جنسی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے مگر ایسے واقعات عموما کم رپورٹ کئے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے ۔جی بی کے سرگرم چیف سیکرٹری اور آئی جی
غیرت کے نام پر قتل غیرت نہیں جہالت ہے۔
کسی بھی معاشرے کے مہذب اور غیر مہذب ہونے کی پہچان یہ ہے کہ وہاں بسنے والے کمزور طبقات کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ کمزور طبقات میں افراد باہم معذوری، خواتین، بچے ، ٹرانس جینڈر اور بزرگ افراد شامل ہوتے ہیں۔ لیکن ان سب میں زیادہ کمزور افراد باہم معذور ہوتے ہیں۔
پاکستان کے دیگر صوبوں کے علاوہ گلگت بلتستان کا معاشرہ ان افراد کی دیکھ بال، تحفظ اور ان کے ساتھ مناسب برتاؤ کے حوالے سے سے بہت پیچھے ہے۔ خاص طور سے ذہنی معذور افراد جن کو یا تو سرد و گرم موسم میں کھلے آسمان تلے رہنے دیا جاتا ہے یا ان کو سڑکوں اور گلی کوچوں میں پھینک دیا جاتا ہے یا زنجیروں سے باندھ کر کمروں میں بند کر کے رکھا جاتا ہے۔ جہاں ان کی حالت انتہائی کرب ناک اور خوف ناک ہوجاتی ہے۔ حکومت اس معاملے میں مکمل بے حس اور بے خبر ہے۔
گلگت بلتستان میں افراد باہم معذوری کی تنظیم کے نمائندوں کے مطابق گلگت بلتستان میں ایسے کئی واقعات ہر سال رونما ہوتے ہیں جن میں افراد باہم معذوری کو جسمانی، جنسی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے مگر ایسے واقعات عموما کم رپورٹ کئے جاتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان میں افراد باہم معذوری کے ادارے کو سوشل ویلفیئر کے محکمے سے الگ کر کے ایک خودمختار اور با اختیار ادارہ بنایا جائے۔ جہاں ان افراد کے حوالے سے مکمل سروے کر کے ان کی فلاح و بہبود کے لئے بنائے گئے قوانین اور پالیسیوں پر مکمل اور فوری عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ افراد ہام معذوری کے حقوق کے تحفظ کے لئے جی بی اسمبلی کی طرف سے بنائے گئے 2019 کے قانون کے رولز بنانے کے علاوہ موثر پالیسی بنا کر اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ گلگت بلتستان کے ہر ضلع میں افراد باہم معذوری کے لئے سرٹیفیکیٹ کے اجراء کی سہولت فراہم کی جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان میں افراد باہم معذوری کے ادارے کو سوشل ویلفیئر کے محکمے سے الگ کر کے ایک خودمختار اور با اختیار ادارہ بنایا جائے۔ جہاں ان افراد کے حوالے سے مکمل سروے کر کے ان کی فلاح و بہبود کے لئے بنائے گئے قوانین اور پالیسیوں پر مکمل اور فوری عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔
ان افراد کے لئے وظائف کے علاوہ خصوصی طور پر ذہنی معذوری کے شکار افراد کے لئے بحالی سنٹرز بنائے جائیں جہاں ماہر ڈاکٹرز کی زیر نگرانی ان کی مناسب دیکھ بال اور تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔
گلگت میں قراقرم انٹرنیشل یونیورسٹی سے متصل سپیشل ایجوکیشن کمپلیکس کا سٹیٹ آف دی آرٹ ہاسٹل کئی سالوں سے نیب کے زیر استعمال ہے۔ اس ہاسٹل کو فوری خالی کر کے مذکورہ مقاصد کے لئے استعما ل کیا جا سکتا ہے۔ گلگت بلتستان میں ایک مکمل سائیکا ٹریک ہسپتال کا قیام بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
آج کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت اس مسئلے کی طرف فوری اور خصوصی توجہ دے۔
مصنف کے بارے میں :
اسرار الدین اسرار انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان گلگت بلتستان کے کا نمائندہ ہے۔ اسرار بام جہان کے ریگولر لکھاری ہے ان کی دلچسپی کے موضات سماجی مسائل، گھریلو تشدد اور انسانی حقوق کے مسائل ہیں۔