عزیز علی داد
پچھلی اقساط کے حوالے سے قارئین کی جانب سے ایک نکتہ بارہا سامنے آیا کہ گلگت بلتستان کے انفرادی و اجتماعی نفسیات، سماج، اور ثقافت کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ تو لیا گیا ہے، لیکن ان مسائل کا حل پیش نہیں کیا گیا۔ ان مضامین میں موجودہ صورتحال سے نکلنے کی تجاویز اس لیے پیش نہیں کی گئیں کیونکہ بیماری کی درست تشخیص علاج کے لیے بنیادی شرط ہے۔ اب جبکہ علاج ہمارے اختیار میں نہیں، اسی لیے ہم نے خود کو تشخیص، تجزیے، اور تجاویز تک محدود رکھا ہے۔
شروع میں ہمارا ارادہ تھا کہ اس سلسلے کو تین اقساط میں ختم کریں، لیکن قارئین کی مفید آرا، تجاویز، اور تجزیے کے باعث کچھ ایسے پہلو سامنے آئے جن کا تجزیہ ضروری تھا۔ یوں یہ سلسلہ نہ صرف طویل ہوتا گیا بلکہ مضامین کے متن اور تجزیے میں بھی کافی تنوع پیدا ہوا۔ اب ہم اس سلسلے کو اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک قارئین کی جانب سے زیر بحث موضوع کے متعلق نئی جہات سامنے آتی رہیں گی یا میری تجزیاتی صلاحیت اور مواد ختم نہ ہوجائیں۔ ایک تجویز جو مختلف حلقوں سے موصول ہوئی، یہ ہے کہ خود فراموشی کے عمل کو ہماری روزمرہ کی زندگی کے واقعات سے واضح کریں۔ آج کے اس مضمون میں ہم اس کو ٹھوس یا عملی مثالوں کے ذریعے واضح کرنے اور نظریاتی بنیادوں پر تشریح و تاویل کی کوشش کریں گے۔
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ کسی بھی عمل کا ایک نظریاتی پہلو ہوتا ہے، جس کے مظاہر ہمیں عملی زندگی میں ملتے ہیں۔ کسی بھی قوم کے تشخص کی حفاظت کے لیے نظریاتی پہلوؤں پر کڑی نظر رکھنا لازمی ہے کیونکہ طاقت ہمیشہ پہلے نظریاتی سطح پر حملہ آور ہوتی ہے، پھر جسم اور زمین پر قبضہ کرتی ہے۔ اس طرح وہ ذہن سے وہ چیزیں مٹا دیتی ہے جو مقامی تشخص اور ذات کی بحالی میں مددگار ہوتی ہیں۔ یہ پہلو اس لیے بھی نظروں سے اوجھل رہتا ہے کیونکہ ہمیں تجریدی سطح کے حملوں کا احساس نہیں ہوتا، جبکہ جسمانی حملے کا فوراً اندازہ ہوجاتا ہے۔ وہ معاشرے جو فکری طور پر بھی غریب ہوتے ہیں، اپنی شناخت پر ان نظریاتی حملوں سے بے خبر رہتے ہیں، اور یوں اپنی عملی زندگی بھی بے خبری میں گزار لیتے ہیں۔ یہی کچھ گلگت بلتستان کے ساتھ ہوا ہے۔
یکم نومبر 1947 کو گلگت بلتستان نے ڈوگروں کے خلاف بغاوت کی۔ اس بغاوت میں آپ کو مقامی عوامل اور محرکات بھی نظر آتے ہیں، جنہیں وقت کے ساتھ یا تو بھلا دیا گیا یا منظم طریقے سے مٹا دیا گیا۔ یکم نومبر کی بغاوت کی ایک مشہور تصویر ہے، جس میں گلگت بلتستان کا جھنڈا نمایاں ہے۔ اس تصویر میں گلگت سکاؤٹس کے دو جوان گھوڑوں پر سوار ہیں، جبکہ باقی لوگ پیدل ہیں۔ ایک گھڑسوار کے ہاتھ میں گلگت بلتستان کا جھنڈا ہے۔ ہمارے سکول کے ساتھی شفقت انقلابی کے مطابق یہ شخص طلحہ خان ہیں اور دوسرے گھوڑے پر کرنل حسن خان ہیں۔ آج کے دور میں اس منظر کو کیسے پیش کیا جارہا ہے، اور ہماری نئی نسل اس کو کیسے دیکھ رہی ہے، اسے گلگت بلتستان کی جدید تاریخ کی سب سے بڑی نشانیوں والی جگہ، چنار باغ میں واقع جنگ آزادی گلگت بلتستان کے شہدا کی یادگار سے واضح کرتے ہیں۔
یہاں پہلے گلگت بلتستان صوبائی اسمبلی تھی۔ یادگار شہدا ء میں کیپٹن بابر خان، شاہ خان، کرنل مرزا حسن خان، صوبیدار صفی اللہ اور دیگر مدفون ہیں۔ اس جگہ کو کچھ عرصہ پہلے آرٹسٹک طریقے سے بنایا اور سجایا گیا ہے تاکہ یہاں آنے والوں کو جنگ آزادی گلگت بلتستان کے متعلق کچھ معلومات مہیا ہو سکیں۔ اس میں جنگ آزادی گلگت بلتستان کے شہدا کے ناموں کو سنگ مرمر کے ستونوں پر آویزاں کیا گیا ہے۔ اس طرح طلحہ خان اور کرنل حسن خان کی تصویر کو دیوار پر میورال (دیوار پر نقش) کے ذریعے دکھایا گیا ہے۔ اس میورال میں منظر کشی اسی مقام اور واقعے کی ہے، لیکن غور کریں تو پتہ چلے گا کہ تصویر میں اس حصے کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو سب سے اہم ہے: گلگت بلتستان کا جھنڈا۔ اس آرٹسٹک میورال میں آرٹسٹک طریقے سے گلگت بلتستان کا جھنڈا ہٹا کر پاکستان کا جھنڈا نصب کیا گیا ہے۔ یوں ریاست، بقول مشہور مورخ ڈاکٹر کے کے عزیز، تاریخ کے قتل کی مرتکب ہوئی ہے۔
میری توجہ اس طرف کچھ بیرون ملک کے دوستوں کے ساتھ اس مقام کے دورے کے دوران ہوئی۔ وہاں کچھ سکول کے بچے دورے پر تھے اور انہیں بتایا جا رہا تھا کہ اس دن گلگت بلتستان میں پاکستان کا جھنڈا بلند ہوا جو کہ بقول گائیڈ سردار عالم کے ہاتھ میں نظر آ رہا ہے۔ یہ تصویر مجھے اچھی طرح یاد تھی، لیکن میورال پر غور نہیں کیا تھا۔ دیکھنے پر پتہ چلا کہ گلگت بلتستان کا جھنڈا ہٹا کر پاکستان کا جھنڈا تھمایا گیا ہے۔ مجھے حیرت ہوئی۔ میں نے اس گائیڈ کو اس غلط بیانی پر ٹوکا لیکن اسے خود اس کا علم نہیں تھا۔ تاریخ کا یہ قتل اس جگہ پر ہو رہا ہے جہاں ہمارے سب سے بڑے ادارے کے سیاسی نمائندے موجود ہوتے تھے۔ کہنے کا مطلب ہے کہ ہماری تاریخ وہاں بھی غائب ہو رہی ہے جو ہمارے سامنے نظر آ رہی ہے۔ آپ سوچیں جو نظر نہیں آ رہی، اس کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہوگا۔
یہ بھی پڑیۓ:
گلگت بلتستان میں خود فراموشی (حصہ اول)
۔ گلگت بلتستان میں خود فراموشی (حصہ دویٔم)
گلگت بلتستان میں خود فراموشی (حصہ سویمٔ)
گلگت بلتستان میں خود فراموشی: سماجی ساخت اورنفسیات (حصہ چہارم)
اسی طرح ہمارے آباؤ اجداد کا کمال تھا کہ انہوں نے ان پہاڑوں کے ہر کونے کدروں، دروں ، دریاوں ، علاقے اور گاؤں کو نام دیے تھے۔ آج ہم ذہنی طور پر اتنے معذور ہو گئے ہیں کہ نام دینا تو دور کی بات، موجودہ ناموں کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ جب آپ کے درمیان سے مادی ثقافت کے نام ختم ہو جائیں گے تو آپ کہاں سے اپنے سماج کا تاریخی راستہ اور منزل ڈھونڈ سکیں گے؟ ہر مقامی نام کے پیچھے تاریخ کی ایک دنیا پوشیدہ ہوتی ہے۔ یہ تاریخی یادداشت ہی ہے جو ایک سماج کے بکھرے افراد کو دھرتی سے جوڑتی اور شناخت میں پروتی ہے۔ گلگت بلتستان کے روایتی طرز فکر میں غیر حیات چیزیں بھی روحانی خصوصیات و اعتقادات سے مملو ہوتی ہیں۔ اسی لیے بڑے بڑے پتھر، جنہیں شینا میں گری اور بروششکی میں بتنگ کہتے ہیں، دیومالائی مخلوق یچھولو/پھت کا مسکن ہوتے تھے۔ اس لیے انہیں توڑنے سے گریز کیا جاتا تھا۔ پہاڑوں کے پتھروں اور بنجر زمینوں کے لوگوں سے باتیں کرتی تھیں۔ ان سے محبت کا رس باہر نکل کر ہماری موضوعی دنیا میں داخل ہوتا اور ہم سے پرترنم گیت اور گانے پیدا کرتا تھا۔
اسی لیے تو ظفر وقار تاج کہتا ہے:
انے کنے تتنگ چھارو بٹ بٹوٹ گا خوش وان جیل
(میری جان، مجھے ان خشک و بے گیاہ پہاڑوں کے پتھروں پہ بھی پیار آجاتا ہے)
راجہ محبوب اور علامہ نصیر سے منسوب ایک مشہور بروششکی غزل میں اپنے محبوب سے وہ ان مشکلات اور مصائب کا ذکر ذکر ہوتا ہے جن سے ایک سچے عاشق کو پہاڑوں اور بیابانوں میں سامنا ہوتا ہے۔ یوں مقامی شاعری میں پہاڑ اور غیر آباد جگہے بھی رقیب کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ اس غزل کا ایک مصرعے میں عازق اپنے مصائب کا ذکر یوں کرتا ہے:
چِلاسݺ مَتومِݣ غُسَئکَرو دَسمِݣ بِڎُمَن دݵسَلاشُمݺ دایَم اُنݺ گَنݺ
وݳ سار سݳ اوسَنُم تَھپمݸ گور دَݣ اݵسقُلَم، اُنݺ گَنے بے تُھم دا مݵنݺ گَنݺ۔
ترجمہ: چلاس کے ان کالے جلتے ہوئے پہاڑوں اور ویرانوں کو مات دے کر میں تمھاری دید کے لیے ہی پہنچا ہو،
میں نے دن کو جھلسا دینے والی سورج کو مات دی اور رات میں جلا دینے والی پتھروں کی حدت کو تاکہ صرف تمھاری ہی دید نصیب ہو۔
چلاس گلگت بلتستان کا سب سے گرم ترین مقام ہے جس کی گرمی انسان کو جلا دیتی ہے۔ اسی لیے چلاس کے داس اور پتھر کالے رنگت کے حامل ہیں۔ پتھر کو جلا دینے والی گرمی کو مات ایک عاشق ہی دے سکتا ہے۔
اسی طرح صلاح الدین حسرت اپنے عشق کی داستان کونوداس کے بیانوں میں پنپنے والی بہاروں سے کرتا ہے:
پار کنوداسئی کیکرو بہارور۔۔۔
(اس پار کنوداس کی کیکروں کی بہاروں میں۔۔۔).
اب دیکھتے ہیں کہ آج اس لفظ کنوداس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ ذرا غور کیجئے۔ کنوداس ایک تاریخی نام ہے۔ بعض لوگ اس لفظ کا مشتق شینا لفظ کنو یعنی کانٹے میں ڈھونڈتے ہیں کیونکہ یہاں ایک خاص قسم کا سخت کانٹا جسے "شوولو کونو” کہا جاتا ہے پایا جاتا تھا۔ یہ جس کے پاؤں میں لگتا تھا سخت زخمی کردیتا تھا۔ جبکہ بعضوں کا خیال ہے کہ یہ لفظ كُنْو یعنی لاش سے نکلا ہے۔ یوں کنوداس کے معنی لاشوں کا بیابان کے نکلتے ہیں۔ اسی طرح دریائے گلگت کو سینا ساری کے علاؤہ کنو ساری یعنی لاشیں لانی والا دریا بھی کہا جاتا ہے۔ كُنْو داس کے نام کے سلسلے میں قرین قیاس یہ ہے کہ یہ ہے کہ قبل از اسلام لاشوں کو کھلا چھوڑا جاتا تھا یا جلایا جاتا تھا۔ اور ایسی جگہ انسانی آبادیاں نہیں بسائی جاتی تھیں۔ لاشوں کو نا دفنانے اور تابوت میں رکھنے کی رسم چترال میں گلگت کے ہم ثقافت کیلاشیوں میں بھی حال تک مروج تھی۔ اب اس طویل تاریخ پہ مبنی کونو داس کو سرکار کے حکم پر علامہ اقبال ٹاؤن قرار دیا گیا ہے۔ یہ تاریخ کو قتل کرنے کی ایک اور مثال ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
۔ گلگت بلتستان میں حیوانی ،معاہدہ
تاریخی خود فراموشی کے ساتھ ادب کا تڑکا لگتا ہے تو اس خیال کی اپنی چاشنی ہوتی ہے۔ گلگت بلتستان میں بھی یہی ہورہا ہے۔ یوں ایک تاریخی یاداشت اور شناخت کے بغیر حال میں ریاست و طاقت کے دئیے ہوئے تڑکوں کو کھا کر خود فراموشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس تڑکے کو تیار کرنے میں تعلیمی ادارے جدید مذہب، سیاست اور ریاست شامل ہیں۔
عزیز علی داد
اب ہماری آنے والی نسلیں حسرت، وقار یا جان علی، ملنگ میں نہیں، بلکہ علامہ اقبال کی شاعری میں کنوداس اور گلگت ڈھونڈیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال کی شاعری میں گلگت کا ایک بھی ذکر نہیں کیونکہ انھیں گلگت بلتستان کا کچھ معلوم ہی نہیں تھا۔ اس کے بر خلاف اقبال نے کشمیریوں کے ارزاں فروخت پر مشہور فارسی شعر "قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند” شعر کہہ کر ان کی وجودی حالت کو ادب کا حصہ بنا دیا ہے۔تاریخ کی خود فراموشی کی وجہ سے اب تو گلگت بلتستان میں کچھ لوگ تو یہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ کشمیریوں کے ساتھ ہم بھی فروخت ہوئے تھے۔ کسی قوم کے لیے اس سے زیادہ کیا زوال آسکتا ہے کہ وہ یہ ثابت کرنے پر اپنا ذہنی توانیاں صرف کرے کہ وہ بھی غلامی میں فروخت ہوئے تھے، حالانکہ اس وقت ان کی اپنی آزاد ریاستیں تھیں۔ تاریخی خود فراموشی کے ساتھ ادب کا تڑکا لگتا ہے تو اس خیال کی اپنی چاشنی ہوتی ہے۔ گلگت بلتستان میں بھی یہی ہورہا ہے۔ یوں ایک تاریخی یاداشت اور شناخت کے بغیر حال میں ریاست و طاقت کے دئیے ہوئے تڑکوں کو کھا کر خود فراموشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس تڑکے کو تیار کرنے میں تعلیمی ادارے جدید مذہب، سیاست اور ریاست شامل ہیں۔ ہم نے گلگت بلتستان اور چترال کا سب سے بڑا قلعہ فردوسیہ جو گلگت میں تھا اس کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ایک برج بچا کر رکھا ہے۔ اور باقی سب کو مارکیٹ میں تبدیل کرلیا۔ انگریز ایک ہزار سال بھی ٹاور آف لندن اپنے بچوں کو دکھاتا ہے۔ ہمارے پاس اپنے بچوں کو دکھانے کے لیے این ایل آئی مارکٹ میں تاریخ نہیں چائنا مال پڑا ہوا ہے۔
اب اسی تاریخ سے لاعلمی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم خود فراموشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ آج گلگت بلتستان کے کتنے لوگوں کو پتہ ہے کہ ریاست گلگت، پونیال، نگر، ہنزہ، سکردو، یاسین، گانچھے، اورشگر کے ریاستوں کے جھنڈے کون سے تھے اور اس کے معنی کیا تھے؟ کیا ان کو پتہ ہے کہ جنگ میں جانے سے پہلے ریاستی لشکر کون سے گانے گاتے تھے؟ جب پتہ نہیں تو مطلب یہ ہے کہ ہم خود فراموشی کی زندگی جی رہے ہیں، اور خود فراموش معاشرے کبھی اپنی شناخت نہیں پاسکتے ہیں۔ اس ہونے اور نا ہونے کے برزخ میں اپنی زندگی گزارتے ہیں۔
گلگت بلتستان پاکستان کے سیاسی انتظام کا وہ برزخ ہے جہاں پہ تاقیامت اس کے متلعق ریاست نے کوئی فیصلہ نہیں کرنا ہے۔ جس طرح کشمیر ی آزادی تک ادھار منع ہے، اسی طرح کشمیر کی آزادی تک گلگت بلتستان کا اپنے تشخص کا حصول ممنوع ہے۔ ایک ایسے سماج کے لوگ جو ایک طویل عرصہ برزخ میں گزارتے ہیں، ان کی عادات و سکنات اور اقدار ایسے ہوجاتی ہیں جو اپنے سماج کو جنت بنانے کی بجائے اسے جہنم بناتے ہیں۔
عزیز علی داد
گلگت بلتستان پاکستان کے سیاسی انتظام کا وہ برزخ ہے جہاں پہ تاقیامت اس کے متلعق ریاست نے کوئی فیصلہ نہیں کرنا ہے۔ جس طرح کشمیر ی آزادی تک ادھار منع ہے، اسی طرح کشمیر کی آزادی تک گلگت بلتستان کا اپنے تشخص کا حصول ممنوع ہے۔ ایک ایسے سماج کے لوگ جو ایک طویل عرصہ برزخ میں گزارتے ہیں، ان کی عادات و سکنات اور اقدار ایسے ہوجاتی ہیں جو اپنے سماج کو جنت بنانے کی بجائے اسے جہنم بناتے ہیں۔ برزخ کی گمنامی میں مبتلا سماج معاشرے کو جہنم بنانے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ اسی لیے تو ہر گلگت بلتستانی فرد کے رویے، سوچ اور حرکات دوسروں کے لیے باعث راحت و الفت نہیں بلکہ زحمت کا باعث ہیں۔ یوں گلگت بلتستان کا ہر فرد دوسرے کے لیے ایک جہنم ہے۔ اس میں افراد کا کوئی قصور نہیں۔ یہ اس نظام کا قصور سے جس نے ہم سے اپنی شناخت و زبان چھین لی ہے اور اس گمنامی میں برزغ جنت لگنی لگی ہے۔ گلگت بلتستان میں این سی پی کلچر اور رویے اس برزخی جنت کی موجودگی کی دلیل ہیں۔
اگلی قسط میں کوشش ہوگی کہ ہم تشخص کی بحالی کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالیں۔ آپ کی آرا، مثالیں اور تجربات ہمیں مزید جہات دکھانے میں مددگار ثابت ہونگی اور فیلڈ ڈیٹا کو وسیع کریگی۔(جاری ہے)
عزیزعلی داد ایک سماجی مفکر ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اور پولیٹکل سائنس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہ دی نیوز، فرائڈے ٹائمز، ہائی ایشیاء ہیرالڈ اور بام جہاں میں مختلف موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر بے شمار مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ ؑعزیز جرمنی کے شہر برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہے ہیں