گلگت بلتستان میں خود فراموشی: بھیانک خوبصورتی (حصہ ہفتم)
عزیز علی داد
آج کے زمانے میں گلگت بلتستان کو دیکھنے کا کوئی ایک زاویہ موجود نہیں ہے، بلکہ اس کو دیکھنے کے متعدد زاویے ہیں جو مختلف ضرورتوں کی وجہ سے وجود میں آئے اور پھر بیانیوں کی صورت اختیار کرگئے۔ ان زاویوں میں ریاستی, تزویراتی، سیاحتی و رومانوی اور مذہبی بیانیے نمایاں ہیں۔ ان میں جو مقبول عام بیانیہ جس کو مقامی لوگوں اپنی فکر و نظر میں سمویا ہے وہ علاقے کے متعلق سیاحتی و رومانوی نظر ہے، جو علاقے کی خوبصورتی پہ اتنا زور دیتے ہیں کہ حسن کے سحر میں مبتلا ہوکر انسانی پہلووں کو یکسر بھول ہی جاتے ہیں۔ یوں گلگت بلتستان کا علاقہ ایک ایسا پاکیزہ جنت کی صورت میں سامنے ابھرتا ہے جس میں انسان بالکل غائب ہوتے ہیں۔ اسی نقطہ نظر نے ایک ایسے ساحرانہ نظریے کو جنم دیا ہے جس میں انسان قدرتی حسن کی رعنائیوں میں گم ہوکر انسانی حقیقتوں سے مکمل غافل ہوجاتا ہے۔ اسی مسحور کن کیفیت میں لوگ اس علاقے کی زمین پر اپنی تلخ وجودی کیفیت سے بے نیاز ہوکر اپنے آپ کو جنت کا باسی تصور کرنے لگتے ہیں۔ اسی لئے تو اس کو کبھی جنت کا ٹکڑا، کبھی پھول کا گلدان، کبھی پریوں کا مسکن، کبھی ماتھا کا جھومر، کبھی نیلگوں دریاوں اور دلکش نظاروں کی وادی، کبھی پربتوں کی رعنائی تو کبھی جھیلوں کی گہرائی تو کبھی شنگریلا نام دیا جاتا ہیں۔ لگتا ہے سارے بہشتی زیور ہمیں ہی ملے ہیں۔ بہشت والوں کے پاس کچھ نہیں رہا۔ اس طرح کے خوشمنا اور بہشتی نام مقامی لوگوں کی تلخ وجودی کیفیت کے اوپر پردہ ڈالنے کے لئے متعارف کیا جاتا ہے۔ حقیقت میں گلگت بلتستان کے لوگ جنت کے مکین نہیں، بلکہ برزخ کے باسی ہے۔ یہ برزخی صورتحال ایک خاص قسم کی نفسیات کو جنم دیتی ہے جو ہر لمحہ انسانوں کے وجود کو پروان چڑھانے کی بجائے اس کو ہر لمحہ ختم کر رہی ہوتی ہے۔
انہی رومانوی بیانیوں کی وجہ سے مقامی لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ جنت کی کوئی مخلوق ہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ گلگت بلتستان ایک جسم ہے جس کو نوآبادیاتی بیماریاں لگ گئی ہے جو اب جسم میں تیزی سے پھیل کر جہاں سماج اور دماغ کے ہر حصے کو اپاہج کررہے ہیں وہاں اس کے خوبصورت جسم کی بھی آبروریزی کررے ہیں۔ آنے والے سطروں میں ہم کچھ ایسی بیماریوں کی تشخیص کرینگے جو نوآبادیاتی برزخ میں جنم لیتی ہیں۔ شاید اس تشخیص کہ وجہ سے علاج کی کچھ صورت نکل آئے۔
اس تشخیص کے لئے ہم نامورفرانسیسی مفکر اور نفسیات دان فرانز فینن کی نوآبادیاتی نفسیات کے تصورات سے استفادہ کرینگے۔ فینن کے نظریات گلگت۔ بلتستان کے تناظر کو سمجھنے کے لئے اس لئے بھی اہم ہیں کیونکہ فینن کے نظریات الجزایٔر کی فرانس کے خلاف جنگ آزادی کے دوران بطور نفسیات دان ان کے تجربے، مشاہدے اور مطالعے سے پیدا ہوئے تھے۔ یعنی اس کے نفسیاتی تصورات الجزایٔر کی وجودی جنگ کی بھٹی کی آگ سے نکلے تھے، نہ کہ موضوعی رومانویت سے۔ فینن خود موریطانیہ سے تعلق رکھنے والے سیاہ فام تھے۔ سیاہ فام لوگوں کی وجودی صورتحال کو بیان کرنے کے لئے انھوں نے نیگریچوڈ Negritude کی اصطلاع استعمال کی۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاہ فام لوگ اپنی وجودی بلوغیت اس لئے حاصل نہیں کر پاتے ہیں کیونکہ ان کی روزمرہ زندگی کا تجربہ نوآبادیاتی ہے۔ یہ تجربہ اس حقیقت سے ابھرتا ہے جسے مقامی لوگوں نے نہیں بلکہ نوآبادیاتی طاقت نے تشکیل دی ہے۔ جب ہم اپنی حقیقت تشکیل نہیں دے سکتے ہیں تو اپنی شخصیت یا شناخت کو بھی نہیں بنا سکتے ہیں۔ شناخت کا نہ ہونا برزخ کے باسی ہونے کی نشانی ہے۔
پینٹنگ ٹائٹل غلامی از تھامس ہارٹ بینٹن۔ اس پینٹنگ میں ایک سیاہ فام غلام اپنے سفید فام آقا کے حکم پر سیاہ فام غلاموں پر کوڑے برسا رہا ہے۔
فینن کے نظریات کے تناظر میں ہم گلگت۔بلتستان کے موجودہ نوآبادیاتی انتظام و انصرام کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم اپنی شخصیت کو بھلا کر ایک جابر نظام کی نظر سے دنیا کو دیکھ رہے ہیں۔ یوں اپنے آپ سے جدا ہوکر ہم اپنے اندر ایک دوسری شخصیت کے وجود کو جنم دے رہے ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہماری آنکھ، احساسات، خیالات، الفاظ اور دیگر انفرادی خصوصیات کسی دوسرے کی عطا کردہ ہیں۔ بقول غالب:
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے،،
راتیں اس کی ہیں، خواب اس کے ہیں،
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں۔۔
یوں ہم ہم میں نہیں رہتے ہیں، بلکہ ہم میں ہمہ وقت ہم ہونے کا وہم رہتا ہے۔ اب ہم میں ہم نہیں کوئی اور بول رہا ہوتا ہے۔ یہ نوآبادیت کی تشکیل دی ہوئی وہ شخصیت ہوتی ہے جو بالآخر ہمیں ہی ہمارے وجود سے بیدخل کردیتی ہے۔ یہ خود فراموشی اور بیگانگی کی سب سے بڑی علامت ہے۔ اس کے نتیجے میں دوگونی شخصیت پیدا ہوتی ہے جو پنڈولم کے پر طرح دو شدید کیفیات پہ موجود ہوتی ہے۔ اس کو نفسیات کی زبان میں موڈ سونگ mood swing یعنی مزاج کا کایا کلپ ہونا بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ذہنی طور پر کوئی مستحکم شخصیت نہیں ہوتی ہے، بلکہ ایک چھلاوا ہوتی ہے جو تاثراتی اور واقعاتی سے بنتی اور مٹتی رہتی ہے۔ ایسی شخصیت کا حامل فرد یا سماج جو مزاج کی برہمی کا شکار ہو اس کا صبح ایک مزاج، دوپہر کو دوسرا اور شام کو الگ مزاج ہوتا ہے۔ اگر ایسی شخصیت میں صبح کے وقت محبت امڈ رہی ہوتی ہے، تو شام کو نفرت اگل رہی ہوتی ہے۔ ایسا شخص و سماج کبھی بھی محبت نہیں کرسکتا ہے یا یوں کہئیے کہ وہ محبت کرنے کی صلاحیت بھی کھو دیتا ہے۔ نتیجے میں نہ صرف سماج میں نراجیت یا یاسیت جنم لیتی ہے بلکہ وہ گھروں میں داخل ہوجاتی ہے۔
قنوطیت کا مارا اور نفرت میں ڈوبا ہوا ذہن اپنے بیوی بچوں سے بھی اجنبی ہوجاتا ہے۔ یوں تباہی کا وہ سلسلہ جو سپر سٹرکچر کی سطح پر شروع ہوا تھا وہ سماج کے بنیادی یونٹ گھرانے اور فرد میں داخل ہو کر تباہی مچا رہا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوتا ہے کہ ہم ہر لمحے سب کچھ بنتے رہتے ہیں سوائے اپنا آپ بننے کے۔ مطلب یہ کہ شخصیت اپنی وجودی شعور کی بجائے طاقت کے تقاضوں اور ضروریات کے تحت بنتی رہتی ہے۔ یوں مستند و مستحکم شخصیت کی تعمیر نہیں ہو پاتی ہے، بلکہ طاقت کے نقش پر بنایا ہوا ایک پتلا پیدا ہوتا ہے جو کبھی انسانیت کی معراج تک پہنچ نہیں پاتا ہے۔ اس کو اس نظام میں اشرف المخلوقات کا بلکہ اسفل السافلین کا درجہ ملتا ہے۔ شخصیت کی یہ تخریب نوآبادیاتی نظام کے حق میں ہوتی ہے کیونکہ نامکمل شخصیت کا مطلب ہے اس کی تکمیل کے لئے ایسا جھوٹا بیانیہ گھڑا جاسکتا ہے جو شخصیت اور سماج میں مکمل ہونے کا گمان پیدا کرے۔ اسی لئے فرد کو نوآبادیاتی نظام میں مستقل طور پر نامکمل رکھا جاتا ہے۔
۔ اس صورتحال کو ہم جی بی ٹیچیوٹ GBtitude کا نام دے سکتے ہیں۔ اگر یہاں پہ گلگت بلتستان میں مروج مخفف کو استعمال کرنے کی روایت پہ غور کریں تو جی بی کا مخفف "جبی” شینا زبان کا لفظ بن جاتا ہے جس کے معنی جھوٹ کے ہیں یا زبان کے ہیں۔ ایسی زبان جو اپنی وجودی حالت کا اظہار نہیں کرسکتی۔ اگر ہمیں جسمانی آزادی حاصل کرنی ہے تو پہلے فکری آزادی حاصل کرنی ہوگی۔ اس کی ابتدا ان الفاظ کو مسترد کرنے سے شروع ہوتی ہے جس کو طاقت کی طرف سے ہمارے اوپر تھونپا اور ہمارے اندر ٹھونسا گیا ہے۔
فرانز فینن کا کہنا ہے کہ نیگرو یا سیاہ فام شخص کا شعور شدید احساس کمتری کا پیدا کردہ ہوتا ہے۔ اس احساس کو غلام اپنی شناخت اور شعور کو مٹا کر اور اپنے آقا کی نقالی کرکے دور کرتا ہے۔ یوں اپنے سیاہ روح (یہاں سیاہ روایتی نسلی تحقیری معنوں میں نہیں لیا گیا ہے) کو سفید کرکے اپنے آقا کی طرح سفید بننا چاہتا ہے گو کہ اس کی جلد سیاہ ہی رہتی ہے۔ فرانز فینن کی کتاب "سیاہ جلد، سفید نقاب” اسی نفسیات کی نقاب کشائی کرتی ہے۔ اسی لئے یہ سیاہ روح آدمی اپنی حرکات حتیٰ کہ تعصبات کو بھی سفید نفسیات میں ڈھا لیتا ہے۔ یوں سفید نقاب سیاہ رنگت پر غالب آجاتا ہے۔ اس عمل کا شاندار اظہار ٹرینٹینو کی مشہور فلم زینگو انچین Django Unchain میں ملتی ہے، جہاں پر ایک سیاہ فام غلام اپنے سفید فام ظالم آقا کی زبان اور رویہ استعمال کرتے ہوئے اپنے مالک کے فارم پر کام کرنے والے سیاہ فام غلاموں کو گالم گلوچ اور سیاہ الفاظ سے نوازتا ہے۔ یوں یہ غلام اپنے لوگوں کی تحقیر کرکے اپنوں سے دور اور آقا سےقریب ہوجاتا ہے اور اپنی تابعداری ثابت کرتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ مظلوم کا سب سے بڑا آئیڈیل ظالم ہوتا ہے۔ یہ بات گلگت بلتستان پہ صحیح بیٹھتی ہے۔
گلگت بلتستان کی نفسیات میں اس سیاہ فام غلامانہ ذہنیت کی ساری علامات واضع طور پر نظر آتی ہیں۔ ہمارے ہاں ایک گاؤں کی سچی کہانی پے۔ ایک بندہ فوج کی افسری سے ریٹائر ہوا۔ دوران سروس اس کو کچھ تمغے بھی ملے تھے۔ اب چونکہ زندگی کے پینتیس سال اپنے اوپر والوں سے آرڈر سننتے اور اپنے ماتحتوں پر حکم صادر کرتے ہوئے گزارے تھے۔ سول زندگی میں آتے ہوئے اسے ایڈجسٹ کرنا مشکل ہوگیا، کیونکہ اسے ڈسپلن کی جگہ آزادی نظر آرہی تھی اور کوئی اس کی سنتا نہیں تھا۔ لیکن مزاج میں طاقت کا بھرم دکھانے کی شرشت موجود تھی۔ اس لئے وہ شام کو گاؤں کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفید شلوار قمیض پہنے، سینے پہ ایک تمغہ سجائے اور بغل میں چھڑی دبائے مٹر گشت کرتے تھے تاکہ لوگوں کی اس پہ نگاہ پڑے اور ان کو تعظیم سے پکاریں۔ کچھ لوگ میجر صاحب کے نام سے مصافحہ کرتے تھے، لیکن اکثریت نے زیادہ توجہ نہیں دی۔۔ بیوی کو ان کے معمول کا پتہ تھا کہ موصوف شام کو چائے پینا پسند کرتے ہیں۔ ایک دن اسی غصے میں میجر گلبہار گھر میں داخل ہوئے تو بیوی نے پوچھا گلو (گلگت میں قریبی لوگوں کو اصل نام کو مختصر یا بگاڑ کے پکارا جاتا ہے) تمھارے لئے چائے بنا لوں؟ اس بات پہ میجر صاحب کو سخت تیش آیا اور بیوی پر ایک سخت تھپڑ رسید کرنے کے بعد بولے کہ پینتیس سال سینکڑوں لوگوں نے مجھے سلیوٹ کیا اور میری خدمت کی مگر آج تک ان کی جرآت نہیں ہوئی کہ مجھے میرے نام سے پکاریں۔ تمھاری یہ جرآت کیسے ہوئی کہ میجر کے ٹائٹل کے بغیر سیدھا میرا نام پکارا؟
یہ بھی پڑیۓ:
گلگت بلتستان میں خود فراموشی (حصہ اول)
۔ گلگت بلتستان میں خود فراموشی (حصہ دویٔم)
گلگت بلتستان میں خود فراموشی (حصہ سویمٔ)
گلگت بلتستان میں خود فراموشی: سماجی ساخت اورنفسیات (حصہ چہارم)
گلگت بلتستان میں خود فراموشی: تاریخ کا قتل (حصہ پنجم)
گلگت۔بلتستان میں خود فراموشی: عمرانی معاہدے کی تشکیل قدیم (حصہ ششم)
گلگت بلتستان میں جو بھی طاقت پر براجمان ہوتا ہے وہ طاقت کے اظہار کئے بغیر نفسیاتی طور پر مضطرب ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں آفیسر ہونا ایک عہدے سے زیادہ نفسیاتی کیفیت بن گئی ہے جس کا مظاہر اکثر ہمارے پبلک اور پرائیویٹ مقامات پر نظر آتے ہیں۔ گلگت شہر میں بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑی روکی جاتی ہے تو بندہ دھمکی دیتا ہے کہ وہ بیس گریٹ کا ریٹائر آفیسر ہے۔ دو ہزار نو کے بعد جس طرح سے بغیر طاقت کے مقامی طاقت ور ہم پہ براجمان ہوئے ہیں ان کی زبان اور پریس کانفرنسز اس بات کی گواہ ہے کہ کس طرح ان کی خوشنودی کے لئے امریکہ کے سیاہ فام غلاموں کی طرح اپنے ہی بھائیوں کو رگیدتے اور گندہ کرتے ہیں۔ بیمار سماج کے اوپر بیمار لوگوں کو مسلط کرتا ہے۔
گلگت بلتستان میں طاقت کی غلام گردشوں اور اقتدار میں موجود لوگوں کی حرکات اور ذہنیت کا مطالعہ کریں تو امریکہ کے انیسویں صدی کے سیاہ فام غلاموں اور گلگت بلتستان کے گورے غلاموں میں کوئی فرق نظر نہیں آئیگا۔
یہ معمولی سا واقعہ بنیادی طور پر طاقت کی گہری حرکیات اور نفسیات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ کس طرح ہماری سماجی اور ذاتی زندگی میں داخل ہوجاتا ہے۔ اس قصے کو سنانے کا مقصد نوآبادیاتی سماج میں پیدا ہونے والی نفسیات کی طرف توجہ مبذول کروانا ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان میں طاقت کی غلام گردشوں اور اقتدار میں موجود لوگوں کی حرکات اور ذہنیت کا مطالعہ کریں تو امریکہ کے انیسویں صدی کے سیاہ فام غلاموں اور گلگت بلتستان کے گورے غلاموں میں کوئی فرق نظر نہیں آئیگا۔ دنیا بھر میں طاقت کے ساتھ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ مگر نوآبادیاتی معاشروں اور نظام میں بغیر طاقت دئیے طاقت کا گمان دیا جاتا ہے اور اسی گمان کے زیر اثر جعلی طاقت پر متمکن افراد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کلی اختیار کے مالک ہیں۔ درحقیقت وہ اس شیر کی مانند ہوتے ہیں جس کے منہ سے دانت اور پنجوں سے ناخون نکال دئیے گئے ہیں۔ اسی لئے ہمارے ہاں ایسے کاغذی شیروں کی بھرمار ہے جو کہ طاقت کے لگڑ بھگڑوں کے سامنے بھی بلی بن جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
گلگت بلتستان میں حیوانی ،معاہدہ
فرانز فینن کا کہنا ہے کہ مظلوم اس کیفیت سے نجات پانے کے لئے زبان کا سہارا لیتا ہے جو اسے اس کی وجودی کیفیت کو بیان کرنے میں مدد دیتی ہے۔ وہ مظلوم کی طرف سے تشدد کو ایک زبان ہی سمجھتا ہے۔ اس لئے فینن تشدد کو تطہیر کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ مگر گلگت۔بلتستان کے لوگوں نے ایک ایسی زبان ایجاد کرلی ہے جو ایک دوسرے کے نفی کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی سہمی ہوئی ذات کی زبان ہے جو اپنی تکمیل اور شناخت سے ڈرتی ہے۔ اسی لئے تو یہ کبھی مذہب کبھی علاقے اور کبھی قبیلے تو کبھی طاقت کا نقاب اوڈھ لیتی یا ان میں پناہ ڈھونڈتی ہے۔ اس کے عتاب کا نشانہ اپنے ہی کمزور لوگ ہوتے ہیں۔ طاقت کے سامنے سرنگوں ہونا ہے اور مظلوم پہ اپنے آقا کی پرچھائی بن کر رہنا اس ذہنیت کا خاصہ ہوتا ہے۔ اسی لئے ہم ہر لمحہ اپنے آپ سے فرار اور دوسرے میں پناہ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اپنی حقیقت سے فرار اور پرفریب بیانیوں میں پناہ لینے کے رجحان کی وجہ سے ہم قدرت کی رعنائیوں اور حسن و عاشقی کے رنگوں میں گم ہوکر اپنے اندر کی اس بیماری سے صرف نظر کرتے ہیں جو ہمیں اندر کتر کر کھا رہی ہے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہم دوا بھی اسی نظام سے مانگتے ہیں جس کے سبب ہم بیمار ہوئے ہیں۔
نوآبادیات کی پیدا کردہ ان امراض میں مبتلا معاشرے میں جو چیز بھی پیدا ہوگی، وہ بیمار ہوگی چاہے وہ یہاں کا ادب ہو، تعلیم ہو، حکمران ہو ،انصاف ہو , دانش ہو، تاریخ یا محبت یا کھیل۔ یہ سب وہ پھوڑے ہیں جو گلگت بلتستان کے سماج کے جسم و دماغ میں پھوٹ رہے ہیں اور ہم نے ان کو جمالیات اور ثقافت کا نام دیا ہے۔
نوآبادیات کی پیدا کردہ ان امراض میں مبتلا معاشرے میں جو چیز بھی پیدا ہوگی، وہ بیمار ہوگی چاہے وہ یہاں کا ادب ہو، تعلیم ہو، حکمران ہو ،انصاف ہو , دانش ہو، تاریخ یا محبت یا کھیل۔ یہ سب وہ پھوڑے ہیں جو گلگت بلتستان کے سماج کے جسم و دماغ میں پھوٹ رہے ہیں اور ہم نے ان کو جمالیات اور ثقافت کا نام دیا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پہ بقول معروف انگریزی شاعر ویلیو بی ییٹس W.B. Yeats
A terrible beauty is born
یعنی ایک بھیانک خوبصورتی جنم لیتی ہے۔ گلگت بلتستان اب خوبصورت نہیں رہا، نوآبادیاتی بیماری نے اسے خوف صورت بنا دیا ہے۔ اب ہمارے لئے خوبصورت اور خوف صورت ایک دوسرے کے کزن لگتے ہیں۔ جو کزن جو۔ (جاری ہے)
اگلے اقساط میں ہم اس نوآبادیاتی خوبصورتی کے بھیانک پہلووں کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک سماجی مفکر ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اور پولیٹکل سائنس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہ ‘دی نیوز’، ‘فرائڈے ٹائمز’، ‘ہم سب’،’ ہائی ایشیاء ہیرالڈ ‘اور ‘بام جہاں ‘میں سماجی و فکری موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر بے شمار مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ ؑعزیز جرمنی کے شہر برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہے ہیں۔